اسلام آباد (پی این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کو لاپتا افراد کو پیش کرنے کا حکم کردیا،عدالت نے حکم دیا کہ وزیراعظم 9 ستمبر کو لاپتا افراد کی عدالت میں پیشی یقینی بنائیں، وزیراعظم کو عملاً دکھانا ہوگا کہ جبری گمشدگی ریاست کی غیراعلانیہ پالیسی نہیں۔اے آروائی نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے مدثرنارو اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
عدالت کا 6 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے جاری کیا ،وزیراعظم لاپتا افراد کی پیشی سے متعلق عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں وزیراعظم کو خود عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی گئی۔عدالت کو بتایا جائے کہ ملوث اہلکاروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی۔وزیراعظم کو عملاً دکھانا ہوگا کہ جبری گمشدگی ریاست کی غیراعلانیہ پالیسی نہیں۔ یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی حکومت کی جانب سے جبکہ لاپتا افراد کی جانب سے وکلا انعام الرحیم ، ایمان مزاری و دیگر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ بڑا واضح ہے کہ موجودہ یا سابقہ حکومت نے لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، سب سے بہترین انٹیلی جنس ایجنسی نے یہ کیس جبری گمشدگی کا قرار دیا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابقہ حکومت کا تو معلوم نہیں اس حکومت نے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت صرف آئین کے مطابق جائے گی، بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت اور چیف ایگزیکٹو کی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ مانتے ہیں کہ یہ کیسز اس طرح ڈیل نہیں ہوئے جیسے ہونے چاہیے تھے، کابینہ کے سینئر اور متعلقہ لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ کابینہ کی کمیٹی ان تمام ایشوز کو دیکھے گی۔انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے اگر سابق چیف ایگزیکٹوز سے بیان حلفی طلب کرنے ہیں تو براہ راست طلب کرے، وزارت داخلہ نے بھی کابینہ ڈویڑن کو لکھا ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹوز کو اپنے بیان حلفی جمع کرانے کا کہیں، پٹشنرز کا احساس ہے، موجودہ حکومت کو تھوڑا وقت دے دیں۔ نیوز ایجنسی کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتی ہے، جس کے دور میں وہ افراد لاپتا ہوئے وہ ذمہ دار ہیں، وفاقی حکومت کو اگر احساس ہوتا تو لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو عدالت آنے ہی نہ دیتے، خود ان تک پہنچتے۔انہوں نے کہا کہ مسلح افواج پر اس طرح کی حرکتوں میں شامل ہونے کا الزام بھی کیوں لگے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، یہ معاملہ تو قومی سلامتی سے متعلق ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 2013 کا فیصلہ موجود ہے، یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے، یا تو کوئی شخص ذمہ داری لے کر ان تمام لوگوں کو بازیاب کرائے، ریاست کا جبری گمشدگی کے کیسز پر جو ردعمل ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں