کراچی(پی این آئی)تفتیشی افسر نے دعا زہرا کے شوہر ظہیر کو بے گناہ قرار دے دیا۔ہفتہ کوسٹی کورٹ کراچی میں دعا زہرا کیس کے تفتیشی افسر شوکت شاہانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظہیر پر اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا، اسے ہم نے حفاظتی تحویل میں لیا، دعا اور ظہیر کی پب جی کے ذریعے دوستی ہوئی تھی، وہیں نکاح کی بات ہوئی تھی، شوہر پر کیس بنتا ہی نہیں۔
تفتیشی افسرنے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی سامنے آنے بعد مزید جائزہ لیا جائے گا، لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے، ہم نے کیس میں ہر پہلو سے تفتیش کی ہے، لڑکی کے بیان کے بعد ظہیر پر اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے دعا زہرا کیس کی سماعت میں مزید تفتیش کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیکریٹری صحت میڈیکل بورڈ بنا کر لڑکی کی عمر کا تعین کریں۔ہفتہ کودعا زہرا کے اغوا سے متعلق کیس کی سماعت
جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ہوئی جہاں پولیس نے جمع کرائے گئے چالان میں کہا کہ تحقیقات میں شواہد نہیں ملے مقدمہ سی کلاس کیا جائے۔پولیس نے عدالت میں گرفتار نکاح خواں غلام مصطفی، گواہ اصغر کو پیش کیا، جبکہ مدعی مقدمے کے وکیل جبران ناصر اور سرکاری وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل جبران ناصر نے پولیس چالان پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چالان کا پورا انحصار صرف دو باتوں پر ہے۔وکیل مدعی نے بتایا کہ چالان کا انحصار اس بات پر ہے کہ بچی کی عمر 17 سال ہے۔
دوسری بات کا انحصار دعا زہرا کا بیان ہے۔جبران ناصر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ دعا کو شیلٹر ہوم بھیجا جائے میڈیکل بورڈ بنایا جائے، اس موقع پر وکیل جبران ناصر نے عدالت میں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی پڑھ کر سنایا۔وکیل جبران ناصر نے کہاکہ ہم نے کل عمر کے تعین سے متعلق سیکریٹری صحت کو درخواست دی ہے۔مقدمہ مدعی کے وکیل کی جانب سے دلائل دینے کے موقع پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ دعا زہرا کے بیان کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟
وکیل نے بتایا کہ پولیس فائل نہ ملنے کے بعد سپریم کورٹ میں دوسری درخواست دائر کی تھی۔وکیل مدعی مقدمہ نے بتایا کہ درخواست میں ہم نے جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور کے بارے میں لکھا تھا، دعا زہرا کے دو بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔وکیل جبران ناصر نے بتایا کہ لاہور میں مجسٹریٹ کے پاس دعا زہرا کے والد اور کزن کے خلاف جعلی درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ والد اور کزن نے دعا زہرا اور اس کے شوہر کو ڈرایا دھمکایا۔
مقدعہ مدعی کے وکیل نے کہا کہ دعا زہرا نے لاہور میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے والد اور کزن کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا، سندھ ہائی کورٹ میں بھی والد اور کزن سے متعلق دعا زہرا نے کچھ نہیں کہا۔وکیل جبران ناصر نے کہاکہ پولیس کی نگرانی میں دعا کو لاہور سے لا کر بیان ریکارڈ کرایا گیا، ایسے میں آزادانہ طور پر بیان کیسے ہوسکتا ہے؟
انہوں نے عدالت میں استدعا کی کہ دعا زہرا کی عمر کے تعین کے حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، تفتیشی افسر کو پابند کیا جائے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔عدالت نے استفسار کیا کہ عمر کے تعین سے متعلق معاملہ کیوں ضروری ہے؟ وکیل مدعی مقدمہ نے بتایا کہ عمر کے تعین سے متعلق اعلی عدلیہ کے فیصلے موجود ہیں۔
وکیل مدعی مقدمہ نے کہا کہ 16 سال کابچہ اگر اپنی مرضی سے بھی کسی کے ساتھ جاتا ہے تو وہ اغوا تصور ہوگا، نادرا ریکارڈ کے مطابق جب دعا زہرا گئی تو اس کی عمر 13 سال 11 ماہ اور کچھ دن تھی۔وکیل جبران ناصر نے کہا کہ ملزم ظہیر کو بچایا جا رہا ہے کیس میں مزید تحقیقات باقی ہیں، تفتیشی افسر چاہتا ہے بچی 17 سال کی ہوجائے اور ملزم پر آنچ نہ آئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے، اس موقع پر عدالت میں موجود سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم نے میرٹ پر کیس کو دیکھنا ہے۔سرکاری وکیل نے کہاکہ اگر عدالت ازسر نو تفتیش اور میڈیکل بورڈ کا کہہ دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
عدالت نے کیس میں ریمارکس دیئے کہ لڑکے ظہیر نے اپنے پورے بیان میں کہا کہ لڑکی میرے پاس آئی، وکیل مدعی مقدمہ نے اس پر کہا کہ ظہیر نے بیان میں کہا 3 سال سے دعا زہرا رابطے میں تھی۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی مزید تحقیقات اور میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیتے ہیں، دعا کی عمر کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لئے سیکریٹری صحت کو لکھیں گے۔
عدالت نے کہا کہ سیکریٹری صحت میڈیکل بورڈ سے متعلق عدالت کو بھی آگاہ کریں، بچی کو یہاں لے کر آئیں یا وہاں میڈیکل کرائیں یہ پراسیکیوشن کا مسئلہ ہے۔تفتیشی افسر نے عدالت میں کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق کام کیا ہے، عدالت نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کیا کہ ہم سی کلاس کی بات نہیں کر رہے صرف عمر کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ بنا رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں