آسلام آباد (پی این آئی) پاکستان اور ارض حرمین کے تعلقات بے مثال اور لازوال ہیں۔اور یہ تعلقات تب سے استوار ہیں جب اس خطے میں پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ امر آج کی نسل کے لیے شاید حیران کن ہو کہ سعودی عرب کی جب بنیاد رکھی جا رہی تھی تو تب یہاں سے مولنا ثناء اللہ امرتسری کی قیادت میں ایک وفد اپنے ساتھ ساز و سامان اور کچھ نقد و زیورات کے ساتھ سعودی عرب گیا اور نوزائیدہ مملکت کے لیے برصغیر کے بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے اپنا حصہ پیش کیا۔محبت اور اخوت کے یہ رشتے چلتے رہے۔اور 1940 ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا ۔مسلم لیگ کے رہنماء ابوالحسن اصفہانی سمیت سب نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔
اخوت کے اس سفر کو مزید مضبوطی 1951 میں ملی جب دونوں ملکوں نے ایک مضبوط معاہدہ کیا۔1965 اور 1971 کی جنگوں میں سعودی عرب نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ۔سوویت یونین کے خلاف جنگ میں بھی ہر ممکن مدد کی۔1998 میں جب پاکستان ایٹمی دھماکوں کے بعد تنہا ہو گیا تو تو سعودی عرب ہی تھا جس نے اپنے بھائی کو گرنے نہیں دیا اور مضبوط سہارا فراہم کیا۔
مختلف قدرتی آفات کے مواقع پر بھی سعودی عرب پیچھے نہیں رہا۔2005ء میں جب آزادکشمیر اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں زلزلہ آیا تو سعودی عرب وہ ملک ہے جس نے سب سے زیادہ امداد فراہم کی۔ نقد امداد کے علاوہ انفراسٹرکچر، صحت،تعلیم سمیت مختلف فلاحی شعبوں میں کئی منصوبے مکمل کیے۔
سعودی عرب کا تعلق پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمیشہ رہا۔ان ہی تعلقات کو مزید مضبوطی اور استحکام تب حاصل ہوا جب 2018 ء میں سمو الامیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ کیا ۔اور 6۔2 بلین ڈالر کے ہنگامی اقتصادی پیکج پر دستخط کیے۔اور بہت ساری سہولیات کا اعلان کیا۔پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر جناب نواف بن سعید المالکی نے ان تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔پاکستان کی حکومت، علمائے کرام اور عوام ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
حرمین شریفین مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبت کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے۔ اگرچہ سب نے اپنی کوششیں کی ہیں لیکن موجودہ سعودی حکومت کے دور میں حرمین شریفین کی تاریخی توسیعی ہوئی ہے۔جو اس سے قبل نہیں ہوئی۔ اس کا آغاز شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خود کیا اور حرم کے اردگرد نکاسی آب کا بندوبست کیا۔
حجاج اور معتمرین جو پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں جاتے ہیں۔ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی کھلے دل کا مظاہر کیا گیا۔رمضان شریف میں حرمین شریفین میں افطاری کا ایک روح پرور منظر ہوتا ہے۔صرف حرم مکی میں 12 لاکھ سے زاہد لوگ افطاری کرتے ہیں ۔دنیا کا لمبا ترین 12 کلومیٹر دسترخوان صرف دس منٹ میں بچھایا اور اٹھایا جاتا ہے اور مکمل صفائی بھی ہو جاتی ہے۔
کرونا کی وباء کے دوران بھی حج جاری رہا اور اب کرونا کے بعد الحمدللہ دوبارہ بڑے پیمانے پر حج کا آغاز ہوا ہے۔ہم ان خدمات پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کو جوڑے اور غیر مسلم دنیا میں مسلمانوں کا بہتر امیج پیدا کرنے کے لیے رابطہ عالم اسلامی اور اس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔اور ہم ان کی خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
پاکستان کی حکومت کے زعماء، دینی جماعتوں کے قائدین، اراکین پارلیمنٹ اور علمائے کرام کا یہ اجتماع اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست اور بھائی ہے۔سعودی عرب کی پاکستان اور عالم اسلام کے لیے جدوجہد کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پوری امت مسلمہ کو حرمین شریفین کی قیادت پر اعتماد ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ حرمین شریفین کی خدمت کرنے والے بھی لائق تحسین ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب یک جان اور دو قالب ہیں۔محبتوں اور اخوتوں کا یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔ ہم سفیر خادم الحرمین الشریفین جناب نواف بن سعید المالکی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اور امید کرتے ہیں وہ اس حوالے سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں