اسلام آباد(پی این آئی) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی واصلاحات وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیاسی اور معاشی تسلسل کے بغیر ترقی ناممکن ہے، دنیا کسی کا انتظار نہیں کرتی ،ہم نے اپنی غلطیوں کو درست کرنا ہے،ترقی کیلئے ہمیں پالیسیوں کے تسلسل کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا، وژن 2025 پر عملدرآمد ہوتا تو پاکستان 25 بہترین معیشتوں میں شامل ہوتا۔
گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے تحت پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو بہتر بنانے کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان 2000 کے بعد ایک جنگ میں چلا گیا،کسی کی جنگ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان پھر دائروں میں چلا گیا،ہم نے کئی سال ضائع کئے 2006کے بعد توانائی کے ایک بحران نے جنم لیا،2013 کو ہماری حکومت آئی اور ہم نے وژن 2025 دیا۔احسن اقبال نے کہا کہ جب ہم نے وژن 2025دیاتب ملک میں سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی،دنیا نے پہلی مرتبہ ہمیں مستقبل کیلئے ایک مضبوط معاشی ملک ماننا شروع کر دیا تھا،2017 میں پھر حکومت کا تسلسل ختم ہوا اور آج 2022میں حالات وہیں پر جا چکے،آج ہم نے چار سال بعد حکومت سنبھالی ہے تو ترقیاتی بجٹ 550ارب تک رہ گیا تھا،ترقیاتی بجٹ کیلئے بھی وزارت خزانہ کا سرکلر آ گیا کہ آخری تین ماہ کیلئے رقم دستیاب نہیں،یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ وزارت خزانہ نے فنڈ نہ ہونے کے باعث ترقیاتی کاموں سے روکا،آج جب ہم 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہم نے گزشتہ کے سفر سے کچھ نہ حاصل کر پایا۔ا نہوں نے کہا کہ سی پیک کا بونس جب ملا تو کہا کرتا تھا کہ قدرت نے ہمیں تیسری مرتبہ ٹیک آف کا موقع ملا ،دوسرا موقع 1991نوازشریف دور میں اکنامک ریفارمز متعارف کرائی،اس وقت پرائیویٹ بنک ,ٹیلی کام سیکٹرز کو اجازت دی اور دیگر اصلاحات متعارف کرائی ،اس حکومت کو دو سال بعد رخصت کر دیا گیا ،منموہن سنکھ نے سرتاج عزیز سے ایس آر اوز کی کاپی لیکروہ اپنے ملک میں متعارف کرائی ،دنیا میں وہ ممالک گنوا سکتا ہوں جنہوں نے ہمارے جتنی کرپشن کرکے ترقی کر لی ،آج ہر پاکستانی کیلئے سنجیدگی کا وقت ہے ، ہم اپنی اگلی نسل کو ایسا راستہ دیکر جائیں کہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرا ئیں۔
انہوں نے کہا کہ آ ئند ہ سال 7 ہزار ارب ٹیکس ریونیو کا تخمینہ ہے،2 ہزار ارب کے نان ٹیکس ریونیو ہے،اس 9 ہزار ارب سے 41 سو ارب صوبوں کو دے دیا جائیگا،وفاقی حکومت کے پاس ساڑھے چارہزار ارب بچے گا،غیر ملکی قرضوں کی مد میں 2015-16 میں 1500 ارب کا بوجھ تھا جو بڑھ کر 4 ہزار ارب ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ 530 ارب پنشنز کا ہے۔4 سو ارب دفاعی اور 130 ارب سول پنشن کا ہے، اس میں 700 سو ارب ترقیاتی بجٹ ہے،1200 ارب خسارے والے اداروں اور صوبوں کو گرانٹس کی مد میں ہیں ،مختلف سبسڈیز کی مد میں 700 ارب رکھا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ایکسپورٹ پر مبنی معیشت پرنہیں چلےجن ممالک نے ترقی کی انہوں نے ایکسپورٹ کو بنیادی ذریعہ بنایا،سیاسی عدم استحکام کے باعث کسی سر مایہ کار کو ہمارا ملک پرکشش نظر نہیں آیا،ہمارے ملک میں کم سیونگ اور انویسمنٹ ریشو ہے،ہم نے اس ملک میں ہیومن ریسورس کو نظر انداز کیا،کوئی ایسا ملک نہیں جو60 فیصد خواندگی کیساتھ ترقی میں پیچھے رہ جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شعبہ زراعت ، انجینئرنگ اور معدنیات میں انوسمنٹ چاہیے،انویسمنٹ تب آئیگی جب انہیں سکیورٹی حاصل ہوگی ،پالیسیوں کا تسلسل انتہائی ضروری ہے،سی پیک پرہم نے پاکستان کی ترقی چین کو لیز پر نہیں دی تھی ،اگر چین سے ہم نے 29 ارب ڈالر پاکستان کے انفراسٹرکچر کیلئے حاصل کیےتو 32 سو ارب پی ایس ڈی پی سے بھی لگائے،ہم نے تھری جی اور فور جی کو لانچ کیا،ہم نے ایچ ای سی کے ذریعے ہر یونیورسٹی میں انوویشن سینٹر بنا کر نوجوانوں کو سٹارٹ اپ کیطرف راغب کیا،آج پاکستان میں کنکٹویٹی کا انفراسٹرکچر موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کا اصل فائدہ انڈسٹریل کوآپریشن تھا جسکے تحت نو اکنامک زون قائم کرنے تھےیہ زون 2020 تک تیار ہونے تھے آج 2022 میں ایک اکنامک زون بھی قائم نہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کسی کا انتظار نہیں کرتی ،ہم نے اپنی غلطیوں کو درست کرنا ہے۔ یوکرین کرائسز نے تیل, کوئلہ سمیت ہر چیز کی قیمت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے،آئی ایم ایف نے عالمی افراط زر کی پروجیکشن کو بہت بڑھا دیا ہے،500 ملین ڈالر سے زائد ہم چائے امپورٹ کرنے والا ملک ہیں ،میں نے چائے کم پینے کا کہا تو اسکا مذاق بنا لیا گیا،یہی بات جب آسٹریلیا میں ایک وزیر نے بجلی بحران پر ایک بلب بند کرنے پر کہی تو کسی نے مذاق نہ بنایا ،سنجیدہ چیزوں پر مذاق نہیں ہونا چاہیے،آج پاکستان جس پولرائزیشن کا شکار ہے ایسے کوئی ترقی نہیں کر سکتا محاذ آرائی کیساتھ کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں