اسلام آباد ( پی این آئی ) مسلم لیگ ضیاء کےسربراہ اعجاز الحق نے کہا ہے کہ نمبرکبھی بلاک نہیں ہوتے ، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے ہو رہے ہیں ، دونوں نمبر کھلے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نہ عمران خان اور ہی نہ فیض یاب کرنے والوں کا نمبر بلاک ہوا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو غصہ ہے کہ ہمارے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی گئی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی سے دشمنی کی جائے اسی لیے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے ہو رہے ہیں ، مریم نواز اس قسم کا دعویٰ نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے نمبرز ہی بلاک ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اورپاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بھی تو سیاسی راستے بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی حکومت میں آگئے کیوں کہ نمبرکبھی بلاک نہیں ہوتے ، اس وقت بھی نمبردونوں جانب سے کھلے ہیں ، عمران خان میں لچک آچکی ہے اور اب دوسروں میں بھی آنی چاہیے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نمبر ان بلاک کرنے سے متعلق صحافی کے سوال کا جواب نہیں دیا ، چند روز قبل پشاور میں ڈیجیٹل میدیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے ملاقات کے دوران جب سابق وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے جو نمبر بلاک کیے تھے، کیا وہ ان بلاک کردیے ہیں؟ اس کے جواب میں چیئرمین تحریک انصاف نے ’نو کمنٹس‘ کہتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے مریم نواز کو تحریک انصاف کا ’قیمتی اثاثہ‘ قرار دیا اور کہا کہ تحریک انصاف کا سب سے قیمتی اثاثہ مریم نواز ہے، ہم جب بھی کسی مشکل میں ہوتے ہیں، وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتی ہے جو ہمارے حق میں جاتا ہے، وہ ہمیں ہمیشہ ریسکیو کرتی ہے۔ اس موقع پر چئیرمین تحریک انصاف نے کہا کہ حکومت میں تھے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ تھا ، پیغام بھیجا گیا کہ ملک کا سوچیں ، پیغام کس کی طرف سے آیا تھا یہ ابھی نہیں بتا سکتا ، امریکا کے زیراثر مخصوص لابی مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتی ہے۔
عمران خان نے عدم اعتماد کے دوران آصف زرداری سے رابطوں کی تردید کی ، انہوں نے کہا کہ 26 سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ آصف زرداری اور ن لیگ ایک ہیں ، لانگ مارچ ختم کرنے کے لیے کوئی ڈیل نہیں ہوئی ، لانگ مارچ ختم نہ کرتا تو خون خرابہ ہوتا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا کہ اسمبلیوں سے مستفعی ہو چکے، تصدیق کے لیے جانے کی ضرورت نہیں ، قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ، اسمبلی میں واپس جانے کا مطلب ہے کہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کر لیا ، اب کسی رکن کو انفرادی طور پر اسمبلی جانے کی ضرورت نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں