لتان(پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین و سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین،علیم خان اور ان کے حواریوں نے ہمیشہ نوٹوں کے بل بوتے پر سیاست کی،ہمیشہ کہا نوٹوں والے اور ہوتے ہیں ووٹوں والے اور ہوتے ہیں، نوٹوں کے زور پر سیاست کرنے والے آج ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، ووٹوں کے زور پر سیاست کرنے والے آج عمران خان کے نظریہ کے ساتھ کھڑے ہیں، نوٹوں کی سیاست کرنے والوں کے حوالے سے میرے سینے میں بہت سے راز ہیںجن کو اب سامنے لانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنی رہائش گاہ باب القریش ملتان میں اپنے حلقہ انتخاب این اے 156 میں حقیقی آزادی مارچ کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری مخدومزادہ زین حسین قریشی‘ رکن صوبائی اسمبلی حاجی جاوید اختر انصاری‘ اعجاز حسین جنجوعہ‘ شیخ طاہر‘ اظہر چاون‘ میاں سجاد انصاری‘ عابد چوہان‘ اشفاق ندیم ایڈووکیٹ‘ راؤ محسن‘ راؤ امجد علی سمیت پی ٹی آئی ورکز کی کثیر تعداد اس موقع پر موجود تھی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا حکومت چلانا امپورٹڈ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ حکومت کے پاس ملک چلانے کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی ان میں اتنی اہلیت۔ موجودہ حکومت 13 جماعتوں پر مشتمل چوں چوں کا مربہ ہے جو جنرل الیکشن کا اعلان ہوتے ہی اپنی اپنی راہ پر گامزن ہونگے اور سب کی راہیں جدا ہونگی۔ یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات جن میں مقدمات کا خاتمہ‘ من پسند قانون سازی اور عمران خان و پی ٹی آئی کی مخالفت میں اکٹھے ہوئے ہیں۔
ان جماعتوں کا نہ نظریہ ایک ہے اور نہ راستہ ایک ہے۔ انہوں نے کہا عمران خان کو اندرونی وبیرونی سازش کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا۔ جو قوم کے سامنے اب عیاں ہے۔ بحیثیت پارٹی دو راستے ہمارے پاس تھے ایک راستہ تھا خاموشی سے بیٹھ جاتے جبکہ دوسرا راستہ تھا پارٹی منشور اور نظریہ پر قائم رہتے ہوئے فسطائی حکومت کے خلاف جدوجہد رکھتے۔ ہم نے پرکٹھن راستے چنا جو بہت خاردار ہے۔
ہمیں پتہ ہے عمران خان ہمت ہارنے والے نہیں۔ وہ ڈٹ کر کھڑے ہیں، انہوں نے 26 سال نظریہ کے تحت جدوجہد کی۔ پہلے پہل اکیلا سفر طے کیا۔ 22 سال کی جدوجہد کے بعد صرف ایک اسمبلی کی سیٹ ان کے پاس آئی۔ اور اب اللہ کے کرم سے ایک وقت یہ بھی تھا عمران خان کے صرف ایک اشارے پر ایک 134 اراکین اسمبلی نے استعفے بھجوادیئے۔ میں بھی عمران خان کے نظریہ کا سپاہی اور محافظ ہوں۔
دو دفعہ 2013ء اور 2022 ء میں فسطائی حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے استعفے پیش کئے، عمران خان کے کہنے پر پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کیلئے کاغذات نامزد کئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر پاکٹ اپوزیشن لیڈر ہے۔ پہلی دفعہ میڈیا پر دیکھا کہ اپوزیشن لیڈر وزیراعظم کی تقریر پر ڈیسک بجا رہا ہے، وہ کیا اپوزیشن لیڈر کا کردار اداکریگا جس کی سوچ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات ن لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑے گا۔انہوں نے کہا کچھ دیدہ اور نادیدہ طاقتوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں پنجاب اسمبلی کی نشست پر ہروایا۔میں قومی اسمبلی میں اسی حلقے سے تیس ہزار سے زائد ووٹوں کے مارجن سے جیتا اور اسی حلقے کی صوبائی نشست سے مجھے 36سو ووٹوں سے ہرایا گیاجبکہ میرے 52 سو ووٹ ڈبل مہریں لگا کر مسترد کئے گئے۔ مجھے ہرا کر تحریک انصاف اور پنجاب کے خلاف سازش کی گئی میں نہیں بلکہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے لاہور میں میڈیا کے سامنے برملا کہا کہ اگر شاہ محمود قریشی رکن صوبائی اسمبلی ہوتے تو آج پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوتے۔
انہوں نے کہا اب پنجاب میں 20 سیٹوں پر الیکشن کی آمد نزدیک ہے۔ اب ذاتیات اور شخصیات کا مقابلہ نہیں بلکہ نظریات کی جنگ ہے۔ ایک طرف عمران خان کا نظریہ ہے اور دوسری طرف چوں چوں کا مربہ ہے۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ جس کے پاس عمران خان کے بلا کا نشان ہوگا وہ عمران خان کے نظریہ کا محافظ ہوگا۔ میں حمزہ شہباز کو چیلج دیتا ہوں میں پنجاب میں ایک ایک حلقے میں اس کا مقابلہ کرونگا۔ہر حلقے میں عمران خان کے نظریہ کو لے کر جاؤنگا۔ کچھ شخصیات ہار کر بھی جیت جاتی ہیں۔ اور کچھ شخصیات جیت کر بھی ہار جاتی ہیں۔ ایسا ہی ملتان کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے کہا آزادی مارچ کے دوران نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ ملک بھر میں ہمارے کارکنوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ کیونکہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔
چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ پولیس گھروں میں داخل ہوئی۔ خواتین کارکنوں کو گرفتار کرکے تشدد کیا گیا۔ ہمارے کارکنوں پر شیلنگ کی گئی۔ ربڑ بلٹ استعمال کی گئیں۔ چھرا گن استعمال کیا گیا۔ اس اسلحے کا استعمال کیا گیا جو دہشت گردوں کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔ حکمرانوں نے تشدد کرکے آمریت جیسے دور کی یاد تازہ کردی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اگر جنوبی پنجاب سے لوگ ہمارے کئے نہیں نکلے تو پھر رکاوٹیں کیوں کھڑی کی گئیں۔گرفتاریاں کیوں عمل میں لائی گئیں۔ کیونکہ حکمرانوں کو خوف تھا کہ عوام اگر گھروں سے نکل پڑے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر انہیں بہا کر لے جائیگا۔ کے پی کے میں ہماری حکومت تھی وہاں پر کوئی روکاٹ کوئی گرفتاری نہیں تھی۔ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے پی کے سے ہمارے ساتھ آئی۔ لیکن اٹک پل پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اس کے باوجود اسلام آباد میں شدید شیلنگ کے باوجود عوام کے سر ہی سر نظر آرہے تھے اور حکمرانوں کی پریشانی اور بوکھلاہٹ قابل دید تھی۔
میں ایک 156 کے اسیروں اور بلخصوص پاکستان بھر میں پی ٹی آئی کے ان کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے خندہ پیشانی سے جبر اور فسطائیت کا مقابلہ کیا۔ قابل تحسین ہیں ہمارے کارکن جو بغیر معافی دیئے گئے رہا ہوئے۔ کیونکہ ماضی میں مثالیں موجود ہیں کہ سیاسی کارکن معافی نامہ دیکر رہا ہوتے تھے۔ میں ایسے کارکنوں کی قدر کرتا ہوں۔ اور انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔آج کی یہ مختصر سی محفل ایسے کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ہے۔ حقیقی آزادی مارچ کے دوران قید وبند کا سامنا کرنے والے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اور پارٹی ایسے کارکنوں کی قربانیوں اور خدمات کو تادیر یاد رکھے۔ بعد ازاں مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں مصروف دن گزارا۔وہ اپنے حلقے انتخاب میں وفات پا جانے والی مختلف شخصیات کی رہائش گاہوں پر گئے۔ مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں