اسلام آباد ( آئی این پی ) وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے لئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی ) کاحجم 800 ارب روپے رکھا گیا ہے ، 100 ارب روپیہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے شامل کیا جائے گا ،ترقیاتی بجٹ کا نوے فیصد حجم جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے ہوگا ، پی ایس ڈی پی میں سیاسی بنیادوں پر شامل کیے گئے 44 فیصدصوبوں کے منصوبوں کو جلد از جلدختم کیا جائے گا ، لیپ ٹاپ اسکیم نوجوانوں کے لئے دوبارہ شروع کی جائے گی، بلوچستان ترقیاتی بجٹ کا فوکس ہوگا ،
ترقیاتی بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ بلوچستان کو دیا جائے گا،سابقہ فاٹا کے لئے 50 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے انوویشن فنڈ اور ای گورنمنٹ فنڈ کا قیام کیا جائے گا ، سائبر سیکیورٹی کے لئے نوجوانوں کی تربیت کے پروگرام بھی شروع کیے جائینگے ، ترقیاتی بجٹ میں ڈھائی سو منی اسٹڈیم بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے ، پی ایس ڈی پی 7 جون کو نیشنل اکنامک کونسل ( این ای سی) میں پیش کر دیا جائے گا ۔
ہفتہ کے روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے وزارت منصوبہ بندی میں ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2023 کے بجٹ کے لئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی )کی سفارشات نیشنل اکنامک کونسل ( این ای سی ) میں پیش کرنے کے لئے تمام متعلقہ وزارتوں اور صوبوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ جب کہ پی ایس ڈی پی سات جون کو پیش کر دیا جائے گا ۔ اگلے مالی سال کے لئے پی ایس ڈی پی کا حجم 800 ارب ہوگا جس میں 100 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بھی شامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال پی ایس ڈی پی کو ترتیب دینا بہت ہی جان جوکھوں میں ڈالنا اور خطرناک چیلنجز کا کام ہے کیونکہ ملک کے 75 سالوں میں پہلی دفعہ چوتھے کوارٹر میں کوئی پیسہ ریلیز نہیں ہوا اور خزانہ خالی تھا ۔ جس کی وجہ سے حکومت کا پورا ڈویلپمنٹ پورٹ فولیو بری طرح متاثر ہوا جب کہ اگلے سال کے لئے وزارت خزانہ 700 ارب روپے کی نشاندہی کی ہے ۔ احسن اقبال نے کہا کہ 2017 میں جب نون لیگ نے حکومت چھوڑی تو ایک ہزار ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا اور چار سالوں میں توقع تھی کہ ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 1800 سے 2000 ارب روپے تک پہنچ جانے کا تھا لیکن یہ بڑھنے کے بجائے اسے 900 سے 500 ارب کر دیا گیا ۔
2021-22 میں پانچ سو ارب کا ترقیاتی بجٹ ورثے میں ملا جو اب ہمارے چھوڑے گئے بجٹ کا 50 فیصد ہے ۔ عوام کی ضروریات میں اضافہ ہوا ہے لیکن بجٹ نصف ہو گیا ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے بجٹ کے لئے 90 فیصد حجم جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے ہونگے تاکہ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کو صاف کیا جائے اور صفائی کا مطلب یہ ہے کہ صوبائی منصوبوں کو وفاق کے پروگرام شامل کیا گیا ۔ سیاسی بنیادوں، صوبائی حکومتوں کو شامل کرنے سے وفاق کے منصوبوں کی تکمیلی صلاحیت کو متاثر کیا نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو نقصان ہوا ۔ منصوبے التواء کا شکار ہوئے پورٹ اینڈ شپنگ کو نقصان ہوا جس کی مثال گوادر بندرگاہ ہے ۔ جہاں چار سال تک صفائی کے لئے پیسے مانگے گئے لیکن نہیں دیئے گئے اور اب گہرائی صرف 11 میٹر رہ گئی ہے ۔ گوادر میں بجلی اور پانی کے منصوبوں کو مکمل نہیں کیا جا سکا ۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت میں پی ایس ڈی پی 44 فیصد سیاسی طور پر استعمال کیا جا رہا تھا ۔ جس سے گلیاں اور نالیاں بنائی جا رہی تھیں ۔ موجودہ حکومت کوشش کر رہی ہے اور ان منصوبوں کو جلد از جلد ختم کرکے اربوں روپے کی بجٹ کی جائے اور وفاقی حکومت اپنی ترجیح کے مطابق کام کر سکے ۔ احسن اقبال نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور حکومت کی خواہش ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ پاکستان کو پانی کے ذخیرے کی سہولت ملے۔ ہماری دوسری ترجیح ہائیر ایجوکیشن ہے ،ہائیر ایجوکیشن کے لئے ریسرچ پروگرامات کے لئے فنڈز کا حجم بڑھایا جائے گا جب کہ نئے ریسرچز کے لئے علیحدہ سے ایک فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔ تیسری ترجیح فیزیکل ترقی ہے جس میں سڑکیں ، ریل ، پورٹ شپنگ کو ترقی دینا ہے ۔ اگلا مشن سائنس کے شعبے میں بھی ترقی دینا ترجیح ہے جس کے لئے انوویشن فنڈ کے نام خطیر رقم رکھی جائے گی ۔
ای گورنمنٹ کے لئے بھی فنڈز رکھے جائیںگے ، سائبر سیکیورٹی میں نوجوانوں کی تربیت کا بھی آغاز کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں نوجوانوں اور بلوچستان کے لئے بہت کچھ رکھا ہے ۔ حکومت نے لیپ ٹاپ سکیم کو دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے ۔ ساتھ ہی آسان قرض میں لیپ ٹاپ پیسے دیئے جائیں گے ۔ 250 منی سپورٹس سٹڈیم کی تعمیر کا فیصلہ بھی صوبوں کے ساتھ مل کرکیا جائے گا ۔ سی پیک کے حوالے سے منصوبوں کو رکھا گیا ہے ۔ ترقیاتی بجٹ کا خاص طور پر فوکس بلوچستان ہے ۔ سب سے زیادہ حصہ بھی بلوچستان کو دیا جائے گا ۔ سابق فاٹا کے لئے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ جی بی اور آزاد کشمیر کے لئے بھی منصوبے رکھے گئے ہیں ۔ پی ایس ڈی پی میں گروتھ ریٹ 5 فیصد رکھا گیا ہے ۔ پچھلے سال یہ 4.8 فیصد تھی اور ترقی کی شرح کا یہ ٹارگٹ حقیقی اعدادو شمار میں رکھا گیا ہے اس کا کسی سے موزانہ درست نہ ہو گا ۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں