اسلام آباد(پی این آئی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے روس سے سستا تیل خریدنے کے بیان پر شہبازشریف حکومت کی ساکھ کو عوامی حلقوں میں شدید دھچکا لگا ہے جبکہ نون لیگی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیرخزانہ کے بلاتکان بولنے کی عادت نے حکومت کو مشکل میں پھنسا دیا ہے ان کے بیان کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا .
تحریک انصاف کا موقف رہا ہے کہ عمران خان کے دورہ روس کے دوران ان کا روس سے عالمی منڈی کے مقابلے میں 30فیصد تک سستا تیل خریدنے کی بات فائنل ہوئی تھی مگر باضابط معاہدہ طے پانے سے پہلے ان کی حکومت ختم کردی گئی اس پر نون لیگ اس دعوی کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتی رہی ہے مگر امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے انٹرویو میں اتحادی حکومت کے وزیرخزانہ اور نون لیگی راہنما مفتاح اسماعیل نے کہا کہ روس پر پابندیاں عائد ہیں اس لیے روس سے سستا تیل نہیں خرید سکتے.
تحریک انصاف کے سابق وزیر خزانہ سینیٹرشوکت ترین نے مفتاح اسماعیل کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت اور اتحادی قوم سے جھوٹ بولتے رہے اب مان رہے ہیں امریکی پابندیوں کے خوف سے حکومت روس سے سستا تیل خریدنے سے کترارہی ہے جبکہ بھارت اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے کیا بھارت پر پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا؟انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ ایک طرف پابندیوں کی بات کررہے ہیں اور دوسری طرف روس سے گندم حریدنے کی.
واضح رہے کہ” سی این این“ کی میزبان بیکی اینڈرسن نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے سوال کیا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پاکستان کو مدد کی اشد ضرورت ہے تو کیا ایسے میں حکومت روس سے تیل اور گندم خریدنے پر غور کر رہی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟جس پر مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ ہم نے روس سے گندم خریدنے کی بات کی ہے گذشتہ حکومت نے روس سے تیل خریدنے کی بات کی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ روس پر اس وقت پابندیاں عائد ہیں روس نے ابھی تک گذشتہ حکومت کی جانب سے تیل کی خریداری کے لیے بھیجے جانے والے مراسلے کا جواب نہیں دیا لیکن ہم نے روس اور یوکرین دونوں سے بات کی ہے ان میں سے جو بھی ہمیں گندم دینے کو تیار ہے ہم ان سے خریدنا چاہیں گے.
اس پر میزبان نے سوال کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ تیل نہیں خریدا جائے گا کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں؟ روس سے تیل نہیں خریدیں گے؟اس سوال پر ایک بار پھر مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ گذشتہ حکومت نے روس کو خط لکھا تھا جس کا جواب نہیں آیا اب تک روس نے تیل فروخت کرنے کی کوئی پیشکش بھی نہیں کی اور اس وقت اس پر پابندیاں عائد ہیں، تو میرے لیا یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہم روس سے تیل خرید سکتے ہیں.
بیکی اینڈرسن دوبارہ سوال کیا کہ کئی ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں مثال کے طور پر پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت روس سے تیل خرید رہا ہے تو کیا پاکستان بھی روس سے سستا تیل خریدنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے؟ مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ اگر روس نے ہمیں سستا تیل دینے کی پیشکش کی اور اگر پاکستان پر روس سے تیل خریدنے کی کوئی پابندی نہیں تو یقیناً ہم اس پر غور کریں گے لیکن اس وقت میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہو گا کہ پاکستانی بینک ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھول سکیں تاکہ روس سے تیل کی خریداری کی جا سکے اور نا ہی روس نے کوئی پیشکش کی ہے.
وزیر خزانہ کے انٹرویو پر تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے ٹوئٹر پر جواب دیا کہ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے بینک روسی مصنوعات کی خریداری کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہیں کھول سکتے لیکن ساتھ ہی وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم روس سے گندم خریدنے کے لیے تیار ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ حکومت روس سے تیل خرید سکتی ہے اگر کوئی پابندی نہیں ہے 45 دن گزر چکے ہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے.
تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا انہوں نے لکھا کہ 45 دن بعد یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم روس سے تیل خریدیں گے اگر کوئی پابندی نہیں ہوئی شیریں مزاری نے کہا کہ روس سے تیل خریدنے پر کوئی پابندی نہیں ہے انہیں چاہیے یہ بھارت سے پوچھ لیں تو پھر آخر ایسی کیا بات ہے جو ان کو روس سے تیل خریدنے سے روک رہی ہے امریکہ کے خوف کے علاوہ؟.
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان روس سے سستا تیل خریدنے کی بات چیت کر رہا تھا حماد اظہر بعد میں ایک خط بھی منظر عام پر لے کر آئے جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے نو دن پہلے روس کو لکھا گیا تھا اور اس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل کی سستے نرخوں پر درآمد کے سلسلے میں دلچسپی رکھتا ہے.
اس خط میں حماد اظہر نے روسی ہم منصب کو لکھا کہ وہ روس کے ان حکام کی تفصیلات فراہم کریں جو روس کے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں بات کو مزید بڑھائیں گے حماد کی جانب سے تنقید اور خط شیئر کیے جانے کے بعد مفتاح اسماعیل نے ٹوئٹر پر ان کو جواب دیتے ہوئے لکھا حماد بھائی میرا انٹرویو غور سے دوبارہ سنیں میں نے یہی کہا کہ آپ کی حکومت نے خط لکھا تھا لیکن میں نے کہا کہ اس کا جواب نہیں آیا میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے عمران خان کے دورہ روس کے ایک ماہ بعد تک انتظار کیا اور پھر یہ خط لکھا وہ بھی اس وقت جب آپ کو علم تھا کہ آپ تحریک عدم اعتماد کا ووٹ ہار جائیں گے اور یہ صرف سیاست کے لیے لکھا گیا.
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے راہنماؤں کی جانب سے سی این این کو دیے گئے اس انٹرویو کے بعد کافی بحث کا سلسلہ جاری ہے اور صارفین اس پر اپنی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ سوال ایک مرتبہ پھر پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر بھارت روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستانی حکومت کیوں نہیں؟
یاد رہے کہ امریکا کا اسٹریجک پارٹنر بھارت روس سے تیل خرید بھی رہا ہے اور 21 مئی کو بھارت کی حکومت نے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کیا تھاگذشتہ روز بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدل میمن نے بھی بھارت سے بات چیت کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ روس سے پابندیوں کے خوف کا سامنا کیے بغیر سستا تیل اور گندم کیسے خریدی جائے.
انہوں نے ”بنگلہ دیش نیوز ٹوئنٹی فور“ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس نے ہمیں تیل اور گندم فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ہم پابندیوں کے خوف سے ایسا نہیں کر سکتے ہم نے بھارت سے پوچھا ہے کہ ا نہوں نے ایسا کیسے کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ بھارت نے کچھ چالیں ڈھونڈ لی ہیں. بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا ہم ایک غریب اور چھوٹا ملک ہیں اسی لیے ہم مغرب کے آسان ہدف ہیں اور وہ ہمیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے واضح رہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد روسی تیل اور گیس پر انحصار ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے تاکہ روس کی آمدنی کو نقصان پہنچایا جا سکے لیکن اب تک یورپی یونین اور برطانیہ مکمل طور پر روس سے تیل اور گیس کی خریداری ختم نہیں کر سکے.
آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ روسی تیل کی خریداری پر مکمل پابندی لگا چکے ہیں لیکن یورپی یونین میں اس معاملے پر مکمل اتفاق نہیں ہو سکا یورپین یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 2022 کے آخر تک سمندر سے آنے والے روسی تیل کی درآمد مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی لیکن روسی پائپ لائن کے ذریعے آنے والے تیل کا استعمال جاری رہے گا اس فیصلے کی وجہ ہنگری اور سلوویکیا جیسے ممالک کی مخالفت بتائی جا رہی ہے جن کا دارومدار روس کے تیل اور گیس پر ہے.
واضح رہے کہ پولینڈ اور جرمنی روس سے تیل پائپ لائن کے ذریعے درآمد پر بھی پابندی کا فیصلہ کر چکے ہیں جس کے بعد یورپ کو سپلائی ہونے والا 90 فیصد روسی تیل بند ہو جائے گا اب تک روس کی گیس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اس سے قبل روس کے خلاف پابندیوں کے تحت روسی بینکوں کو عالمی سوئفٹ نظام سے بھی بے دخل کیا جا چکا ہے جس کا مقصد روس کو اس کی مصنوعات کی برآمد پر ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا.
واضح رہے کہ روس تیل اور گیس کی برآمدات کے لیے سوئفٹ نظام پر انحصار کرتا ہے سوئفٹ نظام سے نکالے جانے کی صورت میں روسی کمپنیوں کو رقوم کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی جس سے اس کی توانائی اور زرعی برآمدات بری طرح متاثر ہوں گی ایسی صورت میں بینکوں کو براہ راست ادائیگیاں کرنا ہوں گی جس پر اضافی اخراجات آئیں گے اس طرح روسی حکومت کے محصولات میں کمی واقع ہو گی.
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں