پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے وفد کو اسرائیل جانے کی اجازت دینے، وزارت خارجہ کی طرف سے معلومات چھپانے کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث آئے گا

اسلام آباد (آئی این پی )قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے گزشتہ حکومت کی طرف سے وفد کو اسرائیل جانے کی اجازت دینے اور وزارت خارجہ کی طرف سے معلومات چھپانے کے خلاف قراردادمذمت قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ۔قرارداد میں حکومت کی توجہ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں آنی والی تفصیلات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جس میں اسرائیلی صدر نے پاکستانی وفد کے دورہ اسرائیل کی تصدیق کی اور اس دورہ کو اہمیت کا حامل قراردیاہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ خود وفد میں شریک پی ٹی وی کے اینکر پرس نے تسلیم کیا ہے کہ وفد کو اسرائیل جانے کی اجازت گزشتہ حکومت کی طرف سے دی گئی اور اس حوالہ سے پاسپورٹ میں اسرائیل کا سفرمنع کے باوجود حکومت نے خصوصی اجازت کے ذریعے اس وفدمیں شامل افراد کو اسرائیل دورہ کے لیے سہولت دی۔قرارداد میں گزشتہ حکومت کی طرف سے وفد کو اجازت اور اس میں شامل افراد کو آئین وقانون اور ریاستی پالیسی سے ہٹ کراسرائیل جانے کی اجازت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔قرارداد میں وزارت خارجہ کی طرف سے مذکورہ پاکستانی وفد کے دورہ اسرائیل کی تفصیل عوام کو نہ بتانے کی بھی شدید مذمت کی گئی ہے۔قرارداد میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ، توسیع پسندانہ عزائم، نئی یہودی بستیوں کے مسلسل قیام، فلسطینی عوام کیساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ظلم و جبر کی شدید مذمت اور فلسطینی حکومت اور عوام کیساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔قرارداد میں حکومت کی توجہ اسرائیل کے حوالہ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے مختلف مواقع پر اختیار کی گئی انتہائی جرات مندانہ اور مضبوط پالیسی کی طرف بھی مبذول کرائی گئی ہے جس کے مطابق جب اسرائیلی سفارتکار نے اسرائیل۔پاکستان تعلقات قائم کرنے کے حوالہ سے قائد اعظم محمد علی جنا ح کو ٹیلیگرام بھیجا تو قائد کا جواب تھا کہیہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے،یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔اور یہ کہ قائد اعظم نے بی بی سی کے نمائندہ کو دیے گئے انٹرویو میں اسرائیل سے متعلق اقوام متحدہ کے فیصلہ پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہبرصغیر کے مسلمان تقسیمِ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں، ہمارا حسنِ انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم فلسطینیوں کی ہر ممکن طریقہ سے مدد کریں۔

اور یہ کہ بانی پاکستان کے اس اندیشہ کی طرف بھی مبذول کراتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ مسترد نہیں کیا گیا تو ایک خوفناک اور بے مثال چپقلش کا شروع ہوجانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ نہ ہوگا کہ ان (فلسطینیوں)کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے۔قرارداد کے آخر میں وفاقی حکومت سے چھ مطالبات کیے گئے ہیں ۔وفاقی حکومت فی الفور اسرائیل جانے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔اعلی سطح کمیٹی بنائی جائے جو اس وفد کے اسرائیل کے دورہ کے مقاصد کی تحقیقات کرے۔ اس وفد کو آئین وقانون اور ریاستی پالیسی سے ہٹ کر خصوصی طور پر اجازت دینے والی اتھارٹیز کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔موجودہ حکومت فوری طور پر اسرائیل کے حوالہ سے ریاستی پالیسی کے حوالہ سے اپنا دو ٹوک موقف کوپاکستان قوم کے سامنے رکھے۔اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے مسلسل قبلہ اول بیت المقدس کی بے حرمتی اور مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کورکوانے کے لیے پاکستانی حکومت عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں