اسلام آباد(آئی این پی) قومی اسمبلی میں ارکان نے گیس کی لوڈشیڈنگ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو تلخ فیصلے کرنے کا مشورہ دے دیا، ارکان نے کہا کہ جون آنے والا ہے، گیس کی لوڈشیڈنگ کس بات کی ہے؟ کراچی کے مختلف علاقوں میں روزانہ رات آٹھ سے صبح پانچ بجے تک گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، صبح گرمی کی وجہ سے بجلی نہیں ہوتی، رات کو گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نہ جنریٹر چلا پا رہے ہیں نہ صبح ناشتہ بنا سکتے ہیں، جو تلخ فیصلے لینے ہیں وہ لے لیں نا کہ اس کے بعد ہم سو جوتے بھی کھائیں اور پیاز بھی کھائیں،ہر جگہ لوڈشیڈنگ ہے، گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کریں۔
منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی قادر خان مندوخیل نے حلقہ این اے 249کراچی میں گیس کی قلت سے متعلق توجہ دلا نوٹس پیش کیا اور کہا کہ جون آنے والا ہے، گیس کی لوڈشیڈنگ کس بات کی ہے؟ توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے توانائی مصدق ملک نے کہا کہ گیس کی کمی کی وجہ سے وہاں پریشر کم ہوتا جارہا ہے، فوری طور پر سمری بھیجی ہے، اضافی 30ملین کیوبک فٹ گیس اس علاقے کو فراہم کی جائے گی، 20کلومیٹر کی پائپ لائن کی بحالی کی جارہی ہے یہ دسمبر میں مکمل ہو گی، 30سے 40ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی سات سے آٹھ دن میں فراہمی شروع ہو جائے گی، جس سے انڈسٹری کو بھی ریلیف ملے گا گھریلو صارفین کو بھی سہولت ملے گی، انہوں نے کہا کہ گیس کی پیداوار پاکستان میں کم ہوتی جارہی ہے۔ رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ میرے حلقے میں روزانہ آٹھ بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، صبح گرمی کی وجہ سے بجلی نہیں ہوتی، رات کو گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نہ جنریٹر چلا پا رہے ہیں نہ صبح ناشتہ بنا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جو تلخ فیصلے لینے ہیں وہ لے لیں نا کہ اس کے بعد ہم سو جوتے بھی کھائیں اور پیاز بھی کھائیں۔
رکن اسمبلی مہر ارشاد سیال نے کہا کہ ہر جگہ لوڈشیڈنگ ہے، لوڈشیڈنگ کو کم کیا جائے، گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کریں، مظفر گڑھ میں یونیورسٹی بنائی جائے،مظفر گڑھ کے عوام کو ایک مکمل یونیورسٹی دی جائے۔اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے لواری ٹنل چترال کی اتصالی سڑک کے تعمیراتی کام کی بندش سے متعلق توجہ دلا نوٹس پیش کیا، جس پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان کو بتایا کہ لواری ٹنل کے ابتدائی کام کا تخمینہ پونے آٹھ ارب روپے کا تھا، 2004سے کام شروع کیا گیا، 2018سے 2022تک نظرثانی شدہ پی سی ون پر ایک پیسہ بھی جاری نہیں ہوا، مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ یہ تیسرا پی سی ون ہے جو 2018سے پینڈنگ ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں