گرفتاریوں کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑا حکم جاری کردیا

اسلام آباد (پی این آئی)پی ٹی آئی لانگ مارچ کو روکنے کے خلاف رہنما عامر کیانی کی دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جلسوں اور دھرنوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات واضح ہیں اور یہ عدالت بھی اسی پر عمل کرے گی۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ پرامن احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے

اور آئین پاکستان پْر امن احتجاج کا حق دیتا ہے۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب سے یہ درخواست دائر کی ہے اس کے بعد گزشتہ رات دیر گئے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر ہی عمل درآمد کریں گے، حکومت کی جانب سے کارکنان کو گرفتار کر کے مارچ میں شمولیت سے روکا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل کی بات پر عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی

جلسوں اور دھرنوں کے حوالے سے فیصلے دیے ہیں، ہم بھی سپریم کورٹ کے پرنسپلز پر حکم جاری کرتے ہیں۔وکیل علی ظفر نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کو کارکنان کو گرفتار نہ کرنے اور مارچ سے نہ روکنے کا حکم دیا جائے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی کے احتجاجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2014میں حکومت سے اجازت لے کر دھرنا دیا گیا تھا مگر کارکنان وہاں سے گرفتار ہوئے تھے۔انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل کو کہا کہ

آپ ضلعی انتظامیہ سے جگہ کا تعین کریں، پھر دیکھا جاسکتا ہے، پرامن احتجاج آپ کا حق ہے۔عدالت نے کہا کہ حالات کا آپ کو بخوبی اندازہ ہے، یہ عدالت کسی واقعے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کو عمومی آرڈر چاہیے جو ہم ایسے نہیں دے سکتے۔خدا نخواستہ اگر کوئی واقعہ ہوجائے تب کیا ہوگا، یہ عدالت کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتی جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم پرامن احتجاج چاہتے ہیں

اور پولیس نے گھروں میں گھس کر چھاپے مارے ہیں، ملک بھرمیں پی ٹی آئی خواتین کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر ہراساں کیا گیا ہے۔وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے سابق ججز کے گھروں پر بھی رات گئے چھاپے مارے گئے ہیں۔عدالت نے پی ٹی آئی وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ کوئی بیان حلفی دے سکتے کہ کوئہ واقعہ نہیں ہوگا اور اگر کچھ ہوگیا تو پارٹی ذمہ دار ہوگی، جس طرح آپ بیان حلفی نہیں دے سکتے

اسی طرح یہ عدالت بھی عمومی حکم نہیں دے سکتی۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2014 میں آزادی مارچ کے حوالے سے اس عدالت نے حکم دیا تھا،جس کے بعد پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور ایس ایس پی پر تشدد کیا گیا تھا۔عدالت نے پی ٹی آئی وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی کہ آپ کی سیاسی جماعت نے ایسا کیا مگر کیا اس واقعے سے انکار کیا جا سکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ جب عدالت ایک حکم جاری کرے

اور اس کے بعد ایسا واقعہ ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟عدالت نے ماضی میں تحریک انصاف کے دھرنے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی رینک کے سینئر افسر کے ساتھ جو ہوا تھا اس میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بیرسٹر علی ظفر کو کہا کہ 2019 کے دھرنے والے کیس کا متعلقہ حصہ آپ پڑھ لیں۔بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے حوالے سے

اس عدالت کے دائرہ کار سے گرفتاریوں کو روکا جائے جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دے دی ہے؟پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے 25 مئی کو لانگ مارچ کے لیے ضلعی مجسٹریٹ کو درخواست دے دی ہے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 27 مئی تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں