اسلام آباد(آئی این پی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار، مرکز، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں تماشا بن گئی ہیں, 10اپریل کی تبدیلی کے بعد مہنگائی کا سونامی جاری ہے اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی عدم استحکام نے بھی ملک کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ڈالر دو سوروپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے،ملکی کرنسی کی قیمت افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہو گئی۔
کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2227 ڈالر اور ہماری 1127ڈالر ہے۔ تجزیہ نگاروں نے بھی ملکی صورت حال کو سری لنکا سے تشبیہ دینا شروع کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک رینٹڈ اکانومی کی بنیاد پر چل رہا ہے جس پر 1947ء سے مفاد پرستوں اور سود خوروں کا قبضہ ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت، اس کا ڈیفالٹ ہونا عالم اسلام کے لیے بھی خطرے کی علامت بنے گا۔ دنیا چاہتی ہے کہ ہم بھی لیبیا کی طرح بن جائیں اور حالات سے تنگ آ کر اپنی ایٹمی طاقت سے دستبردار ہو جائیں۔ معاشی تباہی کا بنیادی سبب سودی نظام ہے۔ قائداعظمؒ نے بھی سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ ملک کی اکانومی کا ماڈل اسلامی ہو گا۔ 1952ء میں 31علمائے کرام نے 22نکات میں بھی سود کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ 1980ء میں اسلامی نظریاتی کونسل 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے بھی سود کو حرام قرار دیا۔ 1956ء، 1962ء اور 1973ء کے آئین میں بھی سودی نظام کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ کئی مغربی ممالک میں بھی شرح سود زیرو ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ حکومت سود فری بجٹ دے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ملک کی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا مکمل روڈ میپ دے۔ تمام بنکوں میں سودی نظام کو ختم کیا جائے۔ گوادر، ریلوے، توانائی سمیت تمام بڑے چھوٹے قومی منصوبے سقوق کی بنیاد پر شروع کیے جائیں، اوورسیز پاکستانی ان میں شراکت دار بن سکتے ہیں۔ زکوٰۃ اور عُشر کا نظام نافذ کیا جائے اورصدقات بنک کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ملک میں لوگ 40ارب روپے روزانہ صدقات کی صورت میں دے سکتے ہیں۔ اس وقت 20لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، اسلامی معیشت کا ماڈل اپنانے سے سوا 7کروڑ لوگ زکوٰۃ دیں گے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ ہمارے قرضے جی ڈی پی کی شرح کے 95فیصد تک پہنچ گئے ہیں اور حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ موجودہ معیشت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اخراجات آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9.5فیصد ہے۔ ایف بی آر کا ادارہ غیر فعال ہو چکا ہے۔ نجات کا واحد راستہ اسلامی معیشت کا نظام ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔ جس بنک نے بھی فیصلے کے خلاف اپیل کی عوام سے اپیل کریں گے کہ اس سے اپنی رقوم نکال لیں۔ سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ معاشی صورت حال سوموٹو لے۔ اعلیٰ عدلیہ اگر پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں ملوث افراد کا محاسبہ کرتی تو آج ہماری معیشت کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم، امیر جماعت اسلامی پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم، امیر جماعت اسلامی اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور امیر جماعت اسلامی راولپنڈی عارف شیرازی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی پی ٹی آئی کی حکومت کا ہی تسلسل ہے۔ ہمارے حکمران اگر اپنے اثاثے قوم کی محبت میں قومی خزانے میں جمع کرا دیں تو ملکی قرضہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ خاندانوں کے پاس گیارہ ارب ڈالر کے اثاثے ہیں، حکمران اشرافیہ کے دو کھرب سے زیادہ اثاثے صرف دبئی میں ہیں۔ جو سیاست دان کہتے ہیں کہ قائداعظم ہمارے لیے رول ماڈل ہے انھیں معلوم ہو گا کہ بانی پاکستان نے اپنے تمام اثاثے پاکستان کو دے دیے تھے، ہمارے حکمران ایسا کیوں نہیں کرتے۔ سود پاکستان کا ہندوستان اور امریکا سے بڑا دشمن ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا مقصد عوام کی آزادی کے لیے ہے اورہم چاہتے ہیں کہ امام بھی تبدیل ہو۔ جماعت اسلامی 22مئی کو سودی نظام کے خاتمے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو من و عن نافذ کرنے کے حق میں ایف 9پارک اسلام آباد میں جلسہ کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو بچایا جائے جس کا واحد راستہ سودی نظام سے چھٹکارا ہے۔ چولستان میں عوام پانی کے ایک قطرے کے ترس رہے ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں گھنٹوں لوڈشیڈنگ جاری ہے، لیکن کچھ لوگ اب بھی حکومتوں کی تبدیلی کے لیے مر رہے ہیں۔بلوچستان میں خودکش حملے ہو رہے ہیں، لیکن لوگ وزارت لینے اور دینے میں مصروف ہیں۔ امیر جماعت نے کہا کہ ایک سونامی کے جانے کے بعد دوسرا سونامی جاری ہے۔ اشیائے خوردونوش، پٹرول اور دوائیاں غائب کرنے والے مافیاز اب بھی حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں۔ 75برسوں سے ملک پر وڈیرا شاہی اور جاگیرداری نظام مسلط ہے۔ معیشت میں بہتری کے دعوے کر کے آئی ایم ایف سے 22پروگرام لیے گئے، مگر حالات مزید خراب ہوئے۔ موجودہ پروگرام 23واں اورمعیشت مکمل طور پر تباہ ہوئی پڑی ہے۔ پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے لوگ شامل ہیں، انھیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔جماعت اسلامی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے، ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ قوم سے کہتا ہوں سب کو آزما لیا اب جماعت اسلامی کو موقع دیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن ریفارمز کی جائیں اور متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہو۔ پی ٹی آئی چیئرمین دھاندلی سے پاک الیکشن انتخابات چاہتے ہیں تو جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ ۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں