اسلام آباد (پی این آئی) سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں بلکہ رائے دی ہے، تین ججز نے آئین کے برخلاف جب کہ دو نے آئین کے مطابق رائے دی ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر تین ججز کی رائے غلط ہے دو ججز کی رائے درست ہے، اکثریتی ججز کی رائے آئین کے خلاف ہے، یہ حکومت وقت پر منحصر ہے کہ وہ اس رائے کو مانتی ہے یا نہیں مانتی، سپریم کورٹ نے جو رائے دی ہے وہ فائنڈنگ نہیں ہے، سپریم کورٹ جو کہتی ہے وہ آئین نہیں بن جائے گا، یہ ایسا فیصلہ نہیں ہے جس کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہو۔انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر وزیر اعظم کی مشاورت سے سپریم کورٹ سے رائے لیتے ہیں لیکن اس رائے کو ماننے کے پابند نہیں ہیں۔
اس وقت موجودہ صدر اس پارٹی سے ہیں جو چاہتی تھی کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہو، انہوں نے ریفرنس بھیجا ہی اس لیے تھا کہ ووٹ کو روکا جاسکے، آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔عرفان قادر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی رائے سے پاکستان کے سیاسی حالات پر فرق ضرور پڑا ہے لیکن آئینی اور قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا، اگر ملک الیکشن کی طرف نہ گیا تو انتشار کی طرف چلا جائے گا، الیکشن کا فیصلہ سیاسی جماعتوں نے کرنا ہے ۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیادہیں اور پالیسی سے انحراف کرنا کینسر ہے۔
منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ اور شمار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے منحرف ارکان کی نا اہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے سوال کو واپس صدرِ مملکت کو بھجوادیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ نا اہلی کی مدت کا تعین کرنے کیلئے بہترین فورم پارلیمان ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کیلئے درست وقت یہی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں