کراچی (پی این آئی) نجی ٹی وی جیو کے پروگرام’’ آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میںمیزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کب ہونے ہیں اور موجودہ حکومت کی مدت کتنی ہے اس پر ن لیگ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے،عمران خان نے ایک اور مسئلہ اٹھادیا ہے کہ ایف آئی اے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف کیس واپس لینے کیلئے دباؤ ہے،یعنی اگر یہ کیسز دباؤ سے ختم ہوتے ہیں تو عمران خان کے بیانیہ کو تقویت ملے گی
،سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ نئے انتخاباتسے متعلق کنفیوژن دور کرنا وزیراعظم شہباز شریف کا کام ہے، شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک بار پھر جلسے میں بار بار امریکی سازش کا ذکر کیا ہے، عمران خان نے کہا ہے کہ جو لوگ سازش روک سکتے تھے میں نے انہیں بتادیا تھا جبکہ شوکت ترین کے ذریعہ بھی پیغام بھجوادیا تھا مگر کچھ نہیں ہوا، دوسری طرف بار بار یہ بات کہی جاچکی ہے کہ سازش کے ثبوت نہیں ملے،
امریکی مداخلت تھی جس کا سفارتی طریقہ کارکے مطابق ڈیمارش دیا گیا۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ پاک فوج کی ملکی سیاست میں کیا کردار ہے اور نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور بیانات سامنے آرہے ہیں، سیاستدانوں کی جانب سے مسلسل فوج اور اعلیٰ قیادت کا ذکر کیا جارہا ہے، پاک فوج کے ترجمان بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ادارے کو ایسی تمام باتوں سے دور رکھا جائے
، گزشتہ دنوں عمران خان نے فوجی قیادت پر بالواسطہ تنقید کی اور نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کی غداری کا ذکر کیا تو اس پر بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کا ردعمل سامنے آیا تھا، اب آصف زرداری اور مریم نواز کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے متعلق بیانات پر بھی آئی ایس پی آر نے سخت ردعمل دیا ہے، ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پشاور کور دو دہائیوں سے دہشتگردی کیخلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے
، اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے، پشاور کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں، ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں، سینئر قومی سیاسی قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کیخلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ جلسوں یا تقاریر کے دوران فوج کو دعوت دینا غیرمناسب بات ہے،
مریم نواز نے یہ بیان ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا”گڈ“ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہاکہ عام انتخابات کب ہونے ہیں اور موجودہ حکومت کی مدت کتنی ہے اس پر ن لیگ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے، اس کے علاوہ حکومتی اتحاد میں بھی تقسیم واضح ہے، پیپلز پارٹی کا موقف الگ لگتاہے جبکہ ن لیگ میں بھی الگ الگ موقف ہے، وزیراعظم شہباز شریف کابینہ سمیت لندن میں نواز شریف سے مشاورت میں مصروف ہیں، شہباز شریف حکومت پاکستان میں کررہے ہیں لیکن مشورے لندن میں
نواز شریف سے کررہے ہیں بڑے معاشی فیصلے نہ ہونے سے مسلسل غیریقینی کی صورتحال ہے، روپیہ آج بھی گرا اور ڈالر مزید بڑھ کر 191روپے 77پیسے پر بند ہوا، مریم نواز بار بار کہہ رہی ہیں کہ فوری انتخابات ہی ملکی مسائل کا حل ہیں، مگر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں حکومت میں رہنا ہے تو مشکل فیصلے کریں اور وقت پورا کریں ورنہ حکومت چھوڑ دینی چاہئے، دوسری جانب پیپلز پارٹی مسلسل کہہ رہی ہے کہ انتخابی اصلاحات سے پہلے انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عمران خان نے ایک اور مسئلہ اٹھادیا ہے کہ ایف آئی اے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف کیس واپس لینے کیلئے دباؤ ہے،یعنی اگر یہ کیسز دباؤ سے ختم ہوتے ہیں تو عمران خان کے بیانیہ کو تقویت ملے گی، شہباز شریف حکومت میں ایف آئی اے ان کیسوں کو کیسے آگے لے کر چلے گی یہ سوال نہ صرف ایف آئی اے کی ساکھ سے متعلق فیصلہ کن ثابت ہوگا بلکہ شہباز شریف حکومت کیخلاف تحریک انصاف جو
بیانیہ بنارہی ہے کہ یہ حکومت اپنے کیسز ختم کرنے کیلئے آئی ہے، ایف آئی اے اور حکومت کیلئے یہ معاملہ ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا کہ وہ عدالت میں کیس لڑیں گے یا ایف آئی اے کو پیچھے ہٹالیں گے، اس کیس میں دو دن بعد وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کیلئے طلب کیا ہوا ہے، اس کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر 16ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کا الزام ہے، اس کیس سے متعلق حالیہ پیشرفت نے
ملک میں نئی بحث چھیڑدی ہے، یہ خبریں سامنے آئیں کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم کردیا گیا ہے، اس حوالے سے ہم نے جامع تحقیقات کیں اور مختلف حقائق حاصل کیے، پراسیکیوٹر کی جس درخواست کی وجہ سے قیاس آرائیاں کی گئیں وہ درخواست ایک مہینہ پہلے کی ہے، نو اپریل کو جب سابق وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی اسی دن ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے چھٹیوں کو درخواست دی
، 11اپریل کو جب شہباز شریف کو وزیراعظم کیلئے اعتماد کا ووٹ لینا تھا تو اسی دن ہی ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین کو بھی عدالت میں پیش ہونا تھاکیونکہ اسی دن شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد ہونا تھی، مگر ایف آئی اے کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے درخواست جمع کروائی کہ ڈی جی ایف آئی اے نے کیس کے تحقیقاتی افسر کے ذریعہ مجھے بتایا ہے کہ میں اس کیس میں پیش نہ ہوں کیونکہ
ملزمان شہباز شریف اور حمزہ شہباز وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ متعلقہ حلقے ملزمان کو پراسیکیوٹ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہو، ہم نے یہ درخواست منظرعام پرآنے کے بعد سابق ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی سے پوچھا کیا آپ نے اس قسم کے احکامات دیئے ہیں؟ تو انہوں نے فون کاٹ دیا،اس کے بعد ہم نے موجودہ ڈی جی ایف آئی اے رائے طاہر سے پوچھا کیا آپ نے اسپیشل پراسیکیوٹر کو حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے کیس میں پیش ہونے سے منع کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسے کوئی احکامات نہیں دیئے گئے،کیس ختم کرنے سے متعلق غلط خبر چلائی گئی ہے
ہم نے کیس واپس نہیں لیا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ اس وقت ملکی معیشت انتہائی مشکل میں ہے، اس حکومت نے مشکل اور بڑے فیصلے فوری کرنے ہیں جس کی تاخیر سے ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے، عمران خان کا مسلسل دعویٰ ہے کہ جب وہ آئے اس وقت انہیں ملک دیوالیہ ملا تھا مگر انہوں نے معیشت کو پیروں پر کھڑا کردیا، مگر آج ہم نے دیکھا کہ متضاد باتیں سامنے آئیں عمران خان کچھ کہہ رہے ہیں شاہ محمود قریشی کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ سینئر صحافی
و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ نئے انتخابات سے متعلق کنفیوژن دور کرنا وزیراعظم شہباز شریف کا کام ہے، شہباز شریف قوم کو بتائیں انہیں کس نے فوری طور پر اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے کہا ہے، شہباز شریف لندن جاکر نواز شریف کو یہ بات بتارہے ہیں مگر پاکستانی قوم کو کیوں نہیں بتارہے، ہر جمہوری شخص چاہتا ہے ملک میں جلد الیکشن ہوجائیں، مگر الیکشن کمیشن کہتا ہے ہم نئی حلقہ بندیاں کررہے ہیں ستمبر اکتوبر سے پہلے الیکشن نہیں کرواسکتے،
آصف زرداری تین چار مہینے بعد الیکشن پر راضی نظر آرہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی کام کررہے ہیں، تحریک عدم اعتماد کیلئے حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کا کام پیپلز پارٹی نے کیا تھا، پیپلز پارٹی اب ن لیگ سے کہہ رہی ہے کہ طے ہوا تھا کہ پہلے انتخابی اصلاحات پھر الیکشن ہوگا، ن لیگ کہہ رہی ہے کہ ہم تیار ہیں لیکن کچھ پرابلمز آگئے ہیں انہیں بھی حل کرنا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں