گزشتہ ساڑھے 3 سال میں جو گند ڈالا گیا، 3 دن میں نہیں اٹھایا جا سکتا، مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کر لیا

کراچی (آئی این پی)جمعیت علمائے اسلام )ف (کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظام نے ساڑھے 3 سال میں جو گند ڈالا ہے اس کو 3 دن میں نہیں اٹھایا جا سکتا، گند ڈالنے میں وقت نہیں لگتا لیکن گند کو صاف کرنے میں وقت لگتا ہے، اس وقت چیلنج یہ نہیں ہے کہ ملک ڈوب گیا، چیلنج یہ ہے کہ ملک کو دوبارہ اوپر کیسے اٹھانا ہے،میر جعفر ایک شخص کا نام نہیں، تاریخ میں بغاوت کا ایک کردار ہے،عمران خان نئے بیانیے کے ساتھ الیکشن کی بات کر رہا ہے، گزشتہ الیکشن میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اب آزادی کی بات کر رہا ہے،

اسے کہتے ہیں تبدیلی، عمران خان آزادی کے نعرے میں ہماری نقالی کر رہا ہے، نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے ، ہمیں اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنی چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کرنی چاہیے، انہیں ملک کی موجودہ صورتحال سے متعلق حقائق بتانے چاہئیں،عمران خان آج پاکستان کے ان اداروں کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں جو ریاست کا تحفظ کرتے ہیں ۔ وہ جمعرات کو یہاںکراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، پسماندہ ملک سے ترقی پذیر ملک تک کا سفر آسان نہیں، ہمیں آگے بڑھنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ گزشتہ 3 سے 4 سال کے دوران ہم نے ترقی معکوس کی ہے، ہم پستی کی جانب گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان کی شرح ترقی صفر تک گر گئی، ہمیں اپنے عوام کو مطمئن کرنا ہوتا ہے جبکہ عالمی برادری سے بھی تعلقاات استوار کرنے ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے بھی ہمیں معاشی طاقت کی ضرورت ہے، دنیا سے تعلقات بنانے کے لیے ہمیں خود معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا تاکہ دنیا ہم سے کاروباری روابط قائم کرے اور اس سے ملک کے عوام کو فائدہ ہو۔سربراہ جے یو آئی (ف)کا کہنا تھاکہ گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کے عوام نے بد ترین صورتحال کا سامنا کیا، گزشتہ 70 سال کے دوران کی گئی ترقی کو ان 3 سال کے دوران برباد کردیا گیا، دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات خراب کردیے گئے، سعودیہ عرب کو ناراض کیا گیا، اسی طرح چین نے بھی سابقہ حکومت کے روییسے مایوس ہو کر اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھا لیا، سی پیک اور دیگر منصوبوں میں کی گئی سرمایہ کاری سے دست بردار ہوگیا۔ان کا کہنا تھاکہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں سابقہ جعلی حکومت معرض وجود میں آئی تھی ، اس جعلی حکومت کی کارکردگی انتہائی خراب تھی جس کے خلاف پاکستان کے عوام نے ہمارا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے عوامی آزادی مارچ کے باعث اداروں کو بھی احساس ہوا کہ یہ نظام اب چلنے والا نہیں ہے، ہمارا اداروں سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ وہ فریق نہ بنیں، آپ فریق بننے والا ادارہ نہیں ہیں، آپ ریاست کا ادارہ ہیں، ہمارا موقف تھا کہ ایک حکمران بھی آپ کو ہماری فوج کے نام سے پکارتا ہے اور عوام بھی آپ کو ہماری فوج کہہ کر پکارتے ہیں، میرا مخالف بھی کہتا ہے کہ میری فوج اور میں بھی کہتا ہوں میری فوج اور ادارے کو اسی مقام پر واپس آنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات کرتے رہے اور ہم نے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا، آج ادراک ہوا تو وہ اپنے آئینی دائرہ اختیار کی جانب جانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں تو انہیں جانور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور میر جعفر کے لفظ سے پکارا جاتا ہے، میر جعفر ایک شخص کا نام نہیں، تاریخ میں بغاوت کا ایک کردار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہے سابق حکمران کے دل میں اداروں اور ان کی قیادت کو توقیر و احترام کہ جب تک وہ ان کا سہارا بنیں تو ٹھیک اور ہماری شکایت بھی غلط۔انہوں نے کہا کہ آج عمران خان نئے بیانیے کے ساتھ الیکشن کی بات کر رہا ہے، گزشتہ الیکشن میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اب آزادی کی بات کر رہا ہے، اسے کہتے ہیں تبدیلی، عمران خان آزادی کے نعرے میں ہماری نقالی کر رہا ہے۔سربراہ جے یو آئی (ف)نے کہا کہ نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے، نقالوں کو پہچاننا چاہیے جو پاکستان میں غلامی کی علامت ہیں، جو ملک کی معیشت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ملک کی تہذیب و ثقانت کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں وہ آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے وفود نے ہمیں کہا کہ اگر پاکستان میں مذہب اور مشرق کی تہذیب ہوگی تو بیرونی امداد آپ کو نہیں ملے گی، کہا گیا کہ دنیا کی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے جب تک ہم ان کی گائد لائن نہیں اپنائیں گے اس وقت تک دنیا کی معیشت ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگی، کہا گیا کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں بہت گہریں ہیں اور ان جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے اس سے بہتر کوئی شخص ہمارے پاس موجود نہیں تھا،

اس لیے پشتون صوبہ سب سے پہلے ان کے حوالے کیا گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ اب صوبے میں بڑا پیسہ آئیگا، وہ پیسا مولوی اور امام تک جائے گا اور اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے تو آپ تنہا رہ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہمیں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ہمیں پہلی کامیابی ملی تو پاکستان کی اشرافیہ کے اندر کھلبلی مچ گئی، وہ حلقے ماتم کناں ہوگئے کہ یہ کیا ہوگیا اور آج بھی عالمی اداروں، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور ولڈ بینک کی جانب سے دبا ئوبرقرار ہے۔سربراہ جے یو آئی(ف)کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں بیوروکریٹس کی جانب سے بریفنگ دی گئی کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط پر فوری من و عن عمل نہیں کیا گیا تو ہم دیوالیہ ہوجائیں گے، میں نے کہا میں اس بریفنگ کو تسلیم نہیں کرتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنی چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کرنی چاہیے، انہیں ملک کی موجودہ صورتحال سے متعلق حقائق بتانے چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں بطور ایک سیاسی کارکن کہتا ہوں کہ جو حکومت ہماری نظر میں جعلی تھی، آئی ایم ایف حکام سن لیں ان کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے ریاست کے معاہدے نہیں ہیں اور ریاست کو ان معاہدوں کے پابند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آئی ایم ایف ہم سے از سر نو بات کرے، ہم جانتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے، ملکی معیشت کو کیسے بہتر کرنا ہے۔سربراہ جے یو آئی(ف)کا کہنا تھا کہ اس وقت مشکل یہ ہے کہ ہمارا مخالف کہتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے 3سال کے گند کو آپ نے 3 روز میں کیوں نہیں اٹھایا، مہنگائی پالیسیوں کے نتیجے میں آتی ہے، جمعہ جمعہ 8 دن میں تو ملک کی پالیسیاں نہیں بنتیں، پالیسیاں بنتی ہیں تو فوری طور پر ان کے اثرات نہیں آتے، یہ اونچ نیچ ہوتی رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ جب پلے دن ہماری حکومت بنی تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 8 سے 10 روپے مستحکم ہوا،اسٹاک مارکیٹ اوپر اٹھی، ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، آٹے کی قیمت میں کمی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ آج بھی حکومت مشاورت کر رہی ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے کہنے پر سبسڈی ختم کردیں، میری رائے میں ہم کچھ وقت مشکل میں گزار سکتے ہیں مگر ہم عام آدمی کو مشکل میں ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں، جمہوری حکومت عوام کی تائید سے چلتی ہے، آپ عوام میں کیا تاثر دیں گے، اس پر مشاورت جاری ہے، ماہرین معشیت بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماہرین معیشت کی ذہنیت بھی واضح ہونی چاہیے، اگر وہ عالمی ادروں کو خدا سمجھتے ہیں تو ہمیں ایسے ماہرین کی ضرورت نہیں، ہمیں ان ماہرین کی ضروت ہے جو دبا ئوکو برداشت کرسکیں، بات کرسکیں اور ان میں ان مشکل حالات میں راستہ بنانے کی صلاحیت بھی ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی پالیسی بنانی ہے، ابھی بیورو کریسی میں بھی تبدیلی کرنی ہے اور احتیاط کے ساتھ آگے چلنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے روز بیانیے تبدیل ہوتے ہیں، آج کا بیانیہ جعلی خط ہے، خط کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیانات واضح ہیں، جھوٹ، مکر، پروپینگڈا اس طرح کے الفاظ ان کے لیے استعمال کیے گئے ہیں جو عام طور پر سفارتی زبان نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف کے وبا پر عمران خان نے قانون سازی کی، امریکا اور مغرب کے شہری آپ کی کابینہ میں شامل رہے، آئی ایم ایف کے نمائندے کو پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا صدر بنایا، اسٹیٹ بینک کو با اختیار بنانے کے نام پر آئی ایم ایف کے حوالے کردیا کہ اب وہ پاکستان کے وزیراعظم اور کابینہ کو بھی جواب دہ ہی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں سب کچھ امریکا کی رہنمائی میں چل رہا تھا اور وہ اس پر فخر کر رہے تھے اور آج وہ امریکا مخالف چورن بیچنے پر آگئے ہیں، نظریاتی لحاظ سے کوئی ایسا کنگال نہ ہو جیسا عمران خان ہیں، ہم کوئی بات کرتے ہیں تو کسی نظریے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پہلے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا اور اس کے لیے پاناما اسکینڈل لایا گیا، پھر معاشی عدم استحکام کے لیے ملک میں عمران خان آگیا۔انہوں نے کہا کہ ابھی حالیہ دنوں میں عمران خان نے بیان دیا کہ اگر فوج نہ ہوتی تو پاکستان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا، ان کے پاس تین حصوں میں تقسیم کی آگاہی کہاں سے آئی۔ان کا کہنا تھا عمران خان نے او آئی سی کو تقسیم کرنے کے لیے ملائیشیا کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور جب دبا آیا تو جانے کے قبل نہیں رہا۔انہوں نے کہا عمران خان آج پاکستان کے ان اداروں کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں جو ریاست کا تحفظ کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک لابی حا ضر سروس قیادت کے اوپر وبا ئوڈال رہی ہے، کیوں یہ لوگ ایسا کر رہے ہیں، کیا یہ لوگ اقتدار کے اتنے لالچی ہوگئے ہیں کہ اداروں کو آپس میں لڑائیں گے تو ملک کا کیا بنے گا، ہمارے دفاع کا کیا بنے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کریں، اختلاف ہم نے بھی بر ملا کیا ہے مگر ایک حد کے اندر اندر، سابق حکمران کہتے ہیں کہ گھر پر ڈاکا پڑتا ہے تو اس وقت چوکیدار کہے کہ میں غیر جانبدار ہوں تو یہ غلط بات ہے۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ میں ایسے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہا کہ آئین و قانون کے مطابق وہ چوکیدار حکومت کے نہیں ہیں، وہ ریاست کے چوکیدار ہیں، حکومت کو ضرورت ہو تو وہ انہیں حکم دے سکتی ہے لیکن وہ حکومت کے چوکیدار نہیں ہیں، حکومت کے چوکیدار عوام، ملک کا سیاسی نظام، آئین و قانون اور اس کی جمہوریت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سابق حکمرانوں کی باتوں سے سمجھ آرہا ہے کہ کون پی ٹی آئی حکومت کی حفاطت کر رہا تھا اور کس کے سہارے وہ چل رہے تھے۔انہوں نے کہا ان تمام باتوں کو سمجھنا ہوگا، ان خطوط پر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، پالیسیاں بنیں گی، اتار، چڑھا آتا رہے گا،آفٹر شاکس ہوتے رہیں گے، اس نظام نے ساڑھے 3 سال میں جو گند ڈالا ہے اس کو 3 دن میں اٹھایا نہیں جا سکتا، گند ڈالنے میں وقت نہیں لگتا لیکن گند کو صاف کرنے میں وقت لگتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چیلنج یہ نہیں ہے کہ ملک ڈوب گیا، ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ ملک کو دوبارہ اوپر کیسے اٹھائیں گے، ہمارے ہاتھ آنے والی ہچکولے کھاتی کشتے کو ساحل پر کیسے پہنچانا ہے، معاشی لحاظ سے ڈوبتے ملک کو کیسے اٹھانا ہے، اس سلسلے میں ہمیں عوام کا تعاون چاہیے، یہ ملک کے عوام کا مشترکہ اجتماعی اور قومی مسئلہ ہے اور ہمیں اسے قومی سطح اور سوچ کی بنیاد پر حل کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھاکہ جلسے کرنا سب حق ہے، مگر یہ اس وقت تحریک کیوں چلائی جا رہی ہے، اس لیے چلائی جارہی ہے تاکہ پھر اقتدار میں آکر بچی کھچی معیشت کو بھی تباہ کردیں تاکہ ملک دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہے لیکن ان کو ایسا کرنے نہیں دیں گے اور پوری دانشمندی کے ساتھ ملک کے معاملات اور مسائل کو نمٹانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج ایک بار پھر دوست ممالک پاکسان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں، سرمایہ کاری کے اعلانات کر رہے ہیں اور امید پیدا ہوئی ہے کہ دوست ممالک ایک بار پھر پاکستان کا ساتھ دیں۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے متعلق گفتگو جاری ہے، مشاورت جاری ہے نئے انتخابات کب کرائیں گے جبکہ انتخابی اور نیب اصلاحاات سے متعلق بھی اتحادیوں سے مشاورت جاری ہے۔نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب چاہیں گے واپس آئین گے، ان کا اپنا ملک ہے، وہ ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔ہم نے فوج پر تنقید ضرور کی مگر ہمارے جلسوں میں کبھی فوج کو گالی نہیں دی گئی، کبھی نہیں کہا گیا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے، ہم نے فوج پر تنقید کی ہے، ہم نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، جانب داری ہمارے نزدیک ٹھیک نہیں تھی تو اس پر ہم نے بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے کبھی نیوٹرل کو جانور کہا، کبھی دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگایا، انہوں نے سپہ سالا کو میر جعفر کہا ، یہ چیزیں آج سامنے آرہی ہیں جبکہ اس سے قبل کسی نے ادارے اور اس کی قیادت کی اس طرح سے توہین نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی اہلکار اور سپاہی بھی جب فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو پہلا حلف وہ سیاست میں حصہ نہ لینا کا اٹھاتا ہے تو اہکاروں کو اپنے حلف پر قائم رہنا چاہیے اور حلف پر قائم رہنے سے ہی اداروں کا احترام اور وقار قائم رہتا ہے جبکہ عمران خان کا جنرل فیض حمید سے متعلق بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ خود فوج کو ساست میں فریق بنا رہے تھے۔ایک سوال کے جواب میں فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہوگی، پی ٹی آئی کی جانب سے ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں، مردہ لاش کے اوپر اپنوں کو رونے کا حق حاصل ہے اور ہم ان کو یہ حق دینا چاہتے ہیں لیکن اگر ایک کروڑ لوگ بھی جمع ہوجائیں تو مردے کو زندہ نہیں کرسکتے، اس لیے ہم پی ٹی آئی جلسوں اور احتجاج سے خوفزہ نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی نے خوب پیسا جھونکا اس لیے ان کو وہاں سیٹیں ملیں جبکہ وہاں صوبائی حکومت بھی ان کی ہے جس نے اربوں روپے کے فنڈز جاری کیے۔انہوں نے کہا کہ مسجد نبوی میں جو افسوسناک واقعہ ہو ا، اس پر پی ٹی آئی نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس کو تاویلیں دینے کی کوشش کی، اس واقعہ کے جواز تلاش کیے گئے، اس حوالے سے جے یو آئی (ف) نے 19 مئی کو کراچی میں اور 21 مئی کو پشاور میں بڑے جلسوں کے انعقادکا فیصلہ کیاہے ۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں