لاہور(پی این آئی) حکومت کی طرف سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو ہٹانے کی کوشش کو صدر مملکت عارف علوی بلاک کر چکے ہیں اور صوبے میں ایک سیاسی بحران تاحال جاری ہے، جس کی ابتداءوزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے ہوئی تھی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے ایڈوائس صدر مملکت کو بھجوائی گئی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔
اس کے باوجود گورنر پنجاب کو ہٹائے جانے کا ایک نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پراس حوالے سے کئی طرح کی افواہیں پھیل رہی ہیں اور لوگ ایک مخمصے کا شکار ہیں کہ آخر گورنر کو ہٹانے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے یا صدر مملکت کے پاس؟ صدر مملکت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا گیا کہ ان کی منظوری کے بغیر گورنر پنجاب کو نہیں ہٹایا جا سکتا۔ صدر علوی کی طرف سے اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 101کی شق 3کا حوالہ دیا گیا جو صدر مملکت کو وزیراعظم کی ایڈوائس کو مسترد کرنے کا اختیار دیتا ہے۔تاہم کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے گورنر پنجاب کو ہٹانے کی ایڈوائس 17اپریل اور یکم مئی کو دو بار صدر مملکت کو بھجوائی گئی۔ دونوں بار ایڈوائس مسترد ہونے کے باوجود آئین کے آرٹیکلز 101اور 48کی شق 1کے تحت عمر سرفراز چیمہ گورنر کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔
رپورٹ کے مطابق آرٹیکل 48کی شق 1میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کی مناسبت سے عمل کریں گے۔ اس کے علاوہ رولز آف بزنس 1973ءکے شیڈول وی بی میں بھی صدر مملکت کو وزیراعظم کی گورنر کو ہٹانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 101میں بھی گورنر کو وزیراعظم کی منظوری کے تابع کیا گیا ہے۔ تاہم قانونی ماہر اور سیاسی تجزیہ کار عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ کابینہ ڈویژن کی طرف سے گورنر پنجاب کو ہٹائے جانے کا نوٹیفکیشن غیرقانونی ہے کیونکہ گورنر کو ہٹانے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں