فارن فنڈنگ کیس، عمران خان نے فنڈز میں گڑبڑ کا اعتراف کر لیا

اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان تحریک انصاف نے غیرملکی فنڈنگ کیس کی الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران اعتراف کیا ہے کہ 2013 سے پہلے پی ٹی آئی فنڈز میں گڑ بڑ ہو رہی تھی اور چیئرمین عمران خان اس سے باخبر تھے۔پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس کی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

 

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے دلائل دیے اور کہا کہ 2010 میں پی ٹی آئی امریکا میں رجسٹر ہوئی، ڈونیشن پالیسی اسکروٹنی کمیٹی دستاویزات میں لگی ہے، جون 2011 کا چیئرمین پی ٹی آئی کا لیٹر دستاویزات میں لگا ہے، یہ لیٹر ویب پر لگا ہے جو فنڈ ریزنگ کے حوالے سے ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے لیٹر میں لکھا ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے نام پر پیسہ اکھٹا کر رہے ہیں جس کا انہوں نے سختی سے نوٹس لیا۔انہوں نے بتایاکہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے فنڈز صرف آفیشل اکاؤنٹ لے سکتے ہیں، سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمہ دار نہیں۔اس پر ممبر ناصر درانی نے کہا کہ فنڈنگ کے ذرائع کیا تھے؟ پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھاکہ اس وقت انفرادی فنڈنگ تھی، پالیسی میں لکھا تھا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے تحت فنڈ اکھٹا ہو گا، احسن اینڈ احسن کمپنی کو رکھنے کی وجہ ایک خط تھا کہ اکاؤنٹس غلط طریقے سے مینٹین ہو رہے ہیں، جتنا پی ٹی آئی نے ڈسکلوز کیا ہے۔

 

اتنے کی ضرورت بھی نہیں تھی، احسن اینڈ احسن چارٹرڈ اکاؤنٹ کمپنی کو پی ٹی آئی نے ٹاسک دیا جس کی وجہ ایک جماعت اپنے اکاؤنٹس کو درست کرنا چاہتی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ سال 2013 سے پہلے گڑ بڑ ہو رہی تھی، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے خود مانا کہ ہمارے پاس اتنے سخت کنٹرول نہیں تھے، اپنی غلطی تسلیم کی۔اس پر ممبر کمیشن نے ریمارکس دیے کہ یہ اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال بھی 2009 سے 2013 تک کی ہے۔ اس پر انور منصور کا کہنا تھاکہ سب شروع ہونے سے قبل پی ٹی آئی نے ادراک کیا اور اصلاح کیلئے پالیسی بنائی ، وارننگ لیٹر بھیجے اور اصلاح کیلئے آڈٹ کرایا، پارٹی نے احساس کیا کہ کوئی غلطی ہے تو اسے دور کیا جائے۔ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ احسن اینڈ احسن پر اپ کا اعتماد رہا ؟ پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھاکہ احسن اینڈ احسن ہمارے ریگولیر آڈیٹر نہیں تھے ، صرف ان سے اصلاح کرنے کا کہا تھا۔

 

اسکروٹنی کمیٹی نے فارن ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ (فارا) کی ویب سائٹ سے لسٹ ڈاؤن لوڈ کی، فارا کے پاس ایجنٹ کی کلیکشن کی رپورٹنگ ہوتی ہے، فارا کے پاس ایجنٹ کا سب ریکارڈ ہوتا ہے، ایجٹ کو ہدایت ہے کہ کس سے ، کس طرح پیسے لیں گے، کلیکشن اور ریمٹینس الگ الگ چیزیں ہیں، ایجنٹ نے کلیشکن کرنی ہے۔انور منصور کا کہنا تھاکہ فارا کا جو اکاؤنٹ اسکروٹنی کمیٹی نے اٹھایا تو اس میں صرف ایجنٹ کی کلیشن تھی کہ ایجنٹ نے بتایا کہ ہم نے اتنا پیسہ اکھٹا کیا، جو پیسہ ہمیں پاکستان میں ریمیٹینس میں ملا وہ ہم نے لوگوں کے نام کے ساتھ ظاہر کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جو پیسے ملے پاکستان میں اس کی رسید ہم نے لگا دیں، رسید میں لکھا ہوا ہے کہ کتنی رقم موصول ہوئی۔

 

تفصیلات میں سامنے لکھا ہے کہ فنڈ دینے والے پاکستانی افراد ہیں اور ہم نے یہ تمام تفصیلات نام اور رسید کے ساتھ دیں لیکن اسکروٹنی کمیٹی نے ہماری دستاویزات پر رسیدوں کو مسترد کر دیاگیا ہم اسے نہیں مانتے، ہماری غیر ملکیوں سے کوئی رسید نہیں ہے ، سب پاکستانیوں کی رسید ہے۔ان کا کہنا تھاکہ دستاویزات میں ہم نے سب انفرادی ڈونرز کا زکر کیا ہے، اسکروٹنی کمیٹی نے فارا کی لسٹ اٹھائی جس فنڈ کو ہمیں نہیں بھیجا گیا تھا، اگر ایجنٹ غلط پیسہ اکٹھا کر رہا ہے تو ہم نے ایک ایجنٹ کو ہٹا دیا، ہمارے ریکارڈ میں فارا پر ظاہر رقم نہیں آئی، اگر درخواست گزار کہتے ہیں کہ یہ رقم آئی ہے تو ہمیں دیکھا دیں، وہ ممنوعہ فنڈ میں آ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو ثابت کرنا ہے کہ ہم نے جعلی تفصیلات دی، فارا سے ہماری رسید نہیں آئی، وہ پیسے ہمیں ٹرانسفر نہیں ہوئے، مجھے جو پیسہ ملا ہے وہ میں نے تفصیلات میں ظاہر کیا ہے، اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ میں ایسے ایسے نام ہیں جو کمپنیاں نہیں ہیں۔

 

ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فارا میں جو پیسے ظاہر ہیں وہ آپ کے اکاؤنٹ میں نہیں آئے؟ انور منصور کا کہنا تھاکہ جی ہم کہ رہے ہیں کہ یہ فارا کی ویب سائٹ پر موجود رقم ہمارے اکاؤنٹ میں نہیں آئی، ہم نے اپنے اکاؤنٹ میں آنے والی چیزوں کی رسید لگا دی اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم نے ان افراد سے فنڈ لیا جسے تسلیم ہونا چاہیے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں