ویب ڈیسک(پی این آئی)سابق وزیراعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی، فواد چودھری کی تصدیق، نجم سیٹھی نے اصل کہانی سنادی۔سابق وفاقی وزیر فوادچودھری نے حال ہی میں نجی ٹی وی پر ٹاک شو میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات خراب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے 24فوادچودھری کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا پچھلےسال جب ستمبر ، اکتوبر میں ڈی جی آئی ایس آئی کا مسئلہ چل رہا تھا تب ہی میں نے کہنا شروع کردیا تھا حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات خراب ہوگئے ہیں۔ کیونکہ خان صاحب براہ راست فوج کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے تھے۔ اس کے پیچھے ان کی ایک سوچ تھی جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔ ستمبر سے خراب ہونے والے تعلقات مارچ تک چلے جو کہ 5 مہینے بنتے ہیں ۔ نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو کہا تھا کہ اب ہم ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جنرل فیض ایک کور کی کمانڈ کرلیں۔ ان کیلئے کم از کم ایک سال کی کور کمانڈ کرنا بڑا ضروری ہے۔
تاکہ وہ آرمی چیف کیلئے کم از کم مطلوبہ اہلیت پوری کرلیں پھر جب لسٹ بنے گی تو ان کا نام بھی اس میں شامل ہوسکے۔ لیکن خان صاحب نے جنرل باجوہ کو کہا کہ مجھے ایک ماہ اور دے دیں۔ یہ بات اگست کی ہے۔نجم سیٹھی نے بتایا کہ جنرل باجوہ پھر عمران خان کے پاس گئے اور کہا ہم نے آرمی میں تبدیلیاں کرنی ہیں۔چار پانچ جرنیلوں کو اِدھر اُدھر کرنا ہے کیونکہ ٹائم پورا ہوگیا ہے اور یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ جس پر خان صاحب نے مزید ایک مہینہ مانگا۔ اس طرح سے جب بات نومبر تک چلی گئی تو آرمی چیف نے کہا بس بہت ہوگیا ، مہربانی کریں اب کردیں۔ اس معاملے پر ہمارے ادارے میں بڑی بےچینی ہے کہ کیوں معاملے کو غیرضروری التوا میں ڈالا جارہا ہے۔ جس پر خان صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ ڈی جی آئی ایس آئی تبدیل کردیں۔آرمی چیف نے اگلے روز آرڈر جاری کئے اور کورکمانڈر کراچی ندیم انجم صاحب کوکہا اپنا سامان وغیرہ پیک کریں اور آجائیں۔
اب اس بات کو کئی دن گزر گئے لیکن خان صاحب کی طرف سے نوٹیفکیشن نہ آیا۔ ندیم انجم اپنا کور کمانڈر کراچی کا عہدہ چھوڑ کر آگئے لیکن آگے سیٹ خالی نہ تھی ۔ آرمی چیف اور دیگر سینئر حکام دوبارہ عمران خان کے پاس گئے اور کہا کہ خان صاحب یہ کیا کررہے ہیں آپ ؟بہرحال خان صاحب نے نوٹیفکیشن تو کردیا لیکن اس وقت تک بدمزدگی پیدا ہوچکی تھی ، میڈیا پر بھی اس معاملے کو خوب اچھالا گیا۔ یہ وہ پوائنٹ تھا جس کے بعد سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں رہے اور آگے چل کر مزید بدمزگیاں پید ا ہوئیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ فوادچودھری کا یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں کہ ان کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے کوششیں کی گئیں۔ کیونکہ حکومت کے تین چار سینئر وزیر کئی مرتبہ آرمی چیف کے پاس جاتے اور معافی تلافی کرتے۔ جنرل باجوہ کہتے اچھا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں ، چلیں آگے بڑھتے ہیں ۔ لیکن خان صاحب کی طرف سے پھر کوئی نہ کوئی وعدہ خلافی کی جاتی جس سے معاملات مزید خراب ہوجاتے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں