اسلام آباد (پی این آئی )سینئر صحافی جاوید چوہدری نے کہاہے کہ چند ماہ قبل گراف کے دبئی آفس نے اپنے ہیڈ کواٹر کو مطلع کیا کہ ولی عہد کیلئے بنائی گئی گھڑیوں میں سے ایک فروخت کیلئے ہمارے پاس آئی ہے ہم کیا کریں ، ہیڈ کواٹر نے ولی عہد محمد بن سلمان کے سیکریٹری سے رابطہ کیا اور سیکرٹری نے ولی عہدے سے پوچھا تو وہ اس حرکت پر شدید حیران رہ گئے تاہم انہوں نے گھڑی خریدنے کا عندیہ دیدیا اور یوں وہ گھڑی 14 کروڑ روپے میں خرید کر ولی عہد کو بھجوا دی گئی ۔
سینئر صحافی جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ وزیراعظم نے دو کروڑ 2 لاکھ 78 ہزار روپے کی رقم اپنی ٹیکس ریٹرن میں ڈکلیئر نہیں کی تھی، یہ رقم ان کے اکاؤنٹس میں سرے سے موجود بھی نہیں تھی لہٰذا سوال پیدا ہوا یہ رقم پھر کہاں سے آئی؟ دوسرا چند ماہ بعد گراف کے دبئی آفس نے اپنے ہیڈکوارٹر کو مطلع کیا ولی عہد کے لیے بنائی گئی گھڑیوں میں سے ایک فروخت کے لیے ہمارے پاس آئی ہے، ہم کیا کریں؟ ہیڈکوارٹر نے ولی عہد کے سیکرٹری سے رابطہ کیا اور سیکرٹری نے ولی عہد سے پوچھا، وہ اس حرکت پر حیران رہ گئے تاہم انہوں نے گھڑی خریدنے کا عندیہ دے دیا اور یوں وہ گھڑی گراف نے 14کروڑ روپے میں خرید کر ولی عہد کو بھجوادی اور یہ حرکت غیر اخلاقی بھی تھی، غیر قانونی بھی اور غیر سفارتی بھی، یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتاہے، گھڑی دبئی میں کس نے فروخت کی تھی؟ پارٹی کے چند لوگ زلفی بخاری کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
یہ الزام لگاتے ہیں، خاتون اول نے گھڑی زلفی بخاری کو دی اور زلفی بخاری اسے دبئی میں فروخت کر آئے، میں نے اتوار کو تصدیق کے لیے زلفی بخاری سے رابطہ کیا لیکن ان کا دعویٰ تھا ”میں نے زندگی میں یہ گھڑی دیکھی اور نہ ہی میں اس معاملے میں انوالو ہوا“ تاہم ان کا کہنا تھا ”عمران خان نے اگر توشہ خانہ کی رقم ادا کردی تھی تو وہ گھڑی کے مالک تھے اور وہ اسے جہاں چاہتے اور جب چاہتے فروخت کرتے کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں“۔عمران خان نے 2018ءسے 2021ءتک غیر ملکی سربراہوں سے 58 تحائف حاصل کیے (میرے پاس پوری فہرست موجود ہے) ان کی کل مالیت 14 کروڑ 20 لاکھ 42 ہزار ایک سو روپے بنتی ہے، ان میں رولیکس کی چھ گھڑیاں، سونے اور ہیروں کے لاکٹ سیٹ، ایئر رنگز، سونے کی انگوٹھیاں اور ہیروں کے کے بریسلٹ بھی شامل ہیں اور انتہائی مہنگے لیڈیز بیگز بھی، خاتون اول کو 20 مئی 2021ءکو بھی نیکلس، ایئر رنگز، انگوٹھی اور بریسلٹ ملا اور توشہ خانہ نے اس کی مالیت 58لاکھ 60 ہزار روپے طے کی تھی اور خاتون اول نے رقم جمع کرا کر یہ تحائف لے لئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحائف عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملے یا پھر وزیر اعظم اور خاتون اول کو اور یہ اگر خاتون اول اور وزیراعظم کو ملے تو پھر ان کا اصل وارث کون ہے؟ یقینا پاکستان لہٰذا یہ کسی بھی صورت حکومت پاکستان کے ہاتھ سے باہر نہیں جانے چاہیے تھے لیکن ہم بفرض محال یہ مان بھی لیں خزانے میں 20 فیصد رقم (یہ رقم اب پچاس فیصد ہوچکی ہے) جمع کرا کر وزیراعظم یا صدر ان تحائف کے حق دار بن سکتے ہیں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے ان تحائف کو مارکیٹ میں بیچنے کی کیا تک تھی؟ یہ حرکتیں یقینا سفارتی تعلقات کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں