اسلام آباد(پی این آئی)قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 کے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں متحدہ حکومت کے امیدوار اور جمعیت علماءاسلام( ف) کے راہنما مولانا عبیداللہ دوسرے جبکہ حکومتی اتحاد میں شامل سعید عمر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے ہیں. تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے امیدوار ڈاکٹرندیم خیال ممکنہ طور پر حلف اٹھانے کے بعد مستعفی ہوجائیں گے دوسری جانب حکومتی حکمت عملی کے طور پر الیکشن کمیشن کے قوانین کے ذریعے اسے روکنے پر غور کررہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمشنر اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دے سکتا ہے تاہم آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی “کے مطابق الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ یہ سب الیکشن کمشنر کی صوابدید ہے کہ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ دوبارہ انتخاب کرایا جائے یا جن پولنگ سٹیشنز میں خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے یا مبینہ طور پر نہیں ڈالنے دیے گئے، ان پولنگ سٹیشنز پر ہی دوبارہ ووٹنگ کرائی جائے اور یا پھر ان ہی نتائج کو تسلیم کر لیا جائے۔حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار نے 20772 ووٹ حاصل کیے جبکہ متحدہ حکومت کے امیدوار اور جمعیت علمائے اسلام کے راہنما عبید اللہ نے 18224 ووٹ حاصل کیے ہیں تیسرے نمبر پر متحدہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوارسعید عمر نے 3314 ووٹ حاصل کیے یہ نشست پی ٹی آئی کے رہنما خیال زمان کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب کے لیے ڈاکٹر ندیم خیال کو ٹکٹ دیا تھا۔
الیکشن کمیشن سے باقاعدہ نتیجے کے اعلان اور نوٹیفیکیشن کے بعد نو منتخب رکن قومی اسمبلی کو ایوان سے حلف لینا ہوگا اس بارے میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ نو منتخب رکن قومی اسمبلی ندیم خیال حلف لینے کے بعد مستعفی ہو جائیں گے ‘فواد چوہدری نے ندیم خیال کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو معلوم ہے کامیابی کے بعد ندیم نے حلف لے کر استعفیٰ دے دینا ہے لیڈر شپ پر ایسے اعتماد کی مثال نہیں ملتی۔بی بی سی کا کہنا ہے کہ ہنگو کے این اے 33 میں کل ووٹرز کی تعداد تین لاکھ اٹھارہ ہزار919 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار 543 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ38 ہزار376 ہے اس حلقے کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے گوشوارے کے مطابق ڈالے گئے گوشوارے کے مطابق ووٹ ڈالنے کی کل شرح 13 فیصد سے کچھ زیادہ رہی ہے جبکہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شروع 6 فیصد تک بتائی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام نے بتایا ہے کہ الیکشن قوانین کے مطابق اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمشنر اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دے سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ سب الیکشن کمشنر کی صوابدید ہے کہ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ دوبارہ انتخاب کرایا جائے یا جن پولنگ سٹیشنز میں خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے یا مبینہ طور پر نہیں ڈالنے دیے گئے، ان پولنگ سٹیشنز پر ہی دوبارہ ووٹنگ کرائی جائے اور یا پھر ان ہی نتائج کو تسلیم کر لیا جائے۔ادھر تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحاد کے ایما پر الیکشن کمیشن خواتین کے ووٹوں کی شرح کوجوازبنا کر ہمارے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنا چاہ رہا ہے جو کہ غیر آئینی ہی نہیں بلکہ انتقامی کاروائی ہے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمارا موقف پہلے سے واضح ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جانبدار ہیں اس لیے تحریک انصاف کی جانب سے ان کے خلاف ریفررنس دائرکیا جارہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں