لاہور(پی این آئی)چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی تبدیلی کے معاملہ پر پنجاب میں اختلافات کے بعد وزیراعظم آفس اور اسٹیبلیشمنٹ ڈویژ ن میں بھی شدید اختلافات ہوگئے، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ترلے منتیں کرتے رہے لیکن کسی نے نہ سنی، 8اپریل کو عمران خان کے حکم پر وزیراعظم آفس نے سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کو آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری کی تبدیلی کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا ،
لیکن سیکرٹری اسٹیبلیمشنٹ ڈویژن افضل لطیف نے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔دنیا نیوز کے لیے محمد حسن رضا نے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ 8اپریل دوپہر 4بجے سے پریشر ڈالنا شروع کیا گیا اور رات 3بجے تک کہا جاتا رہا لیکن سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈٹ گئے اور واضح کہہ دیا کہ ہم ایسے کسی آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو تبدیل نہیں کرسکتے جبکہ سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کو اپوزیشن جماعت یعنی متوقع وزیراعظم کے احکامات پر بھی
کسی اہم عہدیدار نے فون کیا اور کہا کہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہونا چاہیے، کوئی غلط کام نہ کریں ورنہ نتائج غلط ہوں گے، جس پر سیکرٹری ڈر گئے اور ساتھ بیان تبدیل کرتے ہوئے واضح کیا کہ میں نے ہمیشہ وہ کام کیا جو قواعدو ضوابط ، میرٹ قانون کے مطابق ہو، بے فکر رہیں وہی ہوگا جو میرٹ پر ہوگا۔ یہ فون اس وقت آیا جب دوپہر سوا چار بجے کا وقت تھا۔ اخبار کے مطابق وزیراعظم آفس سے سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژ ن کو فون کیا کہ فوری آرڈر کریں ورنہ آپ کو
بھی تبدیل کردیا جائے گا، جس پر سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن افضل لطیف نے کہاکہ تبدیل کردیں لیکن آرڈر نہیں ہوں گے،یہ قواعدو ضوابط اور قوانین کے مطابق نہیں ، سیکرٹری نے وزیراعظم آفس کوجواب دیا کہ پہلے کابینہ سے منظوری لیں۔ پنجاب سے تھرو پراپرچینل لیٹر منگوائیں ، جو طریقہ کار ہے اس کو فالو کریں، ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس سے رات گئے تک متعدد احکامات دئیے لیکن سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈٹ گئے اور نوٹیفکیشن جاری نہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ کے انکار کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے سیکرٹری عامر جان کو کہا کہ خط پر دستخط کرکے بھجوا دو۔ جس پر سیکرٹری اسٹیبلیمشنٹ ڈویژن کے انکار کے بعد وزیراعلیٰ کے سیکرٹری عامر جان نے کہا کہ اس وقت ہم کیسے دستخط کرسکتے ہیں اور انہوں نے بھی خط پر دستخط کرنے سے انکار کیا جبکہ 8اپریل کو وزیراعلی آفس، وزیراعظم آفس کی جانب سے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کیلئے
متعدد احکامات اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کورات گئے تک دیے جاتے رہے لیکن کوئی احکامات پر عملدرآمد کوتیا ر نہ تھا ۔ وزیراعظم آفس اور وزیراعلی آفس دونوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ فیاض دیو کو آئی جی پنجاب لانا ہے اور طاہر خورشید کو چیف سیکر ٹری تعینات کیا جائے، جبکہ دوسری جانب چیف سیکرٹری کے لئے جو حکومت نے نام دیا تھا جس میں عبداللہ سنبل کا نام شامل تھا ، جب انہیں پتا چلا کہ طاہر خورشید ہی چیف سیکرٹری ہوں گے تو انہوں نے اپوزیشن اراکین اسمبلی کو
فون کر کے بتایا کہ وہ چیف سیکرٹری نہیں لگ رہے ۔ اس لئے ریکارڈ میں لے آئیں کہ میں نے حکومت کی پیش کش کو مسترد کردیا اور ن لیگ کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے لگی جبکہ عبداللہ سنبل سے کسی بھی حکومتی شخص نے رابطہ نہ کیا اور نہ ہی ان کو چیف سیکرٹری لگایا جانا تھا، صرف کارروائی کیلئے تین افسران کا پینل بنایا گیا تھا۔بتایا گیا ہے کہ عبداللہ سنبل ہی وہ آفیسر ہیں جنہوں نے عمران خان کی سربراہی اجلاس میں بطور سیکرٹری خزانہ کہا تھا کہ ن لیگ دور کے
تمام ترقیاتی سکیموں کے فنڈز روک دیئے اور کام بند کروا دیا ہے۔ نیب کو شہبازشریف اور حمزہ شہبازشریف سے متعلق مواد دینے میں سب سے آگے رہے، اپوزیشن کے خلاف حکمت عملی بناکر دیتے رہے۔ اب ن لیگ کو آتے دیکھ کر ساتھ ہی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں، واضح رہے کہ سیکرٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن افضل لطیف، سیکرٹری وزیراعلی عامر جان جو کہ تحریک انصاف کے انتہائی قریبی آفیسر سمجھے جاتے ہیں، یہ سب اس لئے کیا تاکہ ن لیگ کی ہمدردی حاصل کی جاسکے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں