تحریک عدم اعتماد کی کیامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو صدر بنایاجائیگا یا نہیں؟ بلاول بھٹو نے واضح کر دیا

اسلام آباد(پی این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو صدر بنانے سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔انہوں نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جمہوریت کو نقصان پہنچا، عدلیہ کا فیصلہ اداروں کو غیر متنازع بنانے کی شروعات ہے،اب الیکٹرونک ووٹنگ مشین، آر ٹی ایس پلس ثابت ہو گی۔

 

اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق کا مجوزہ قانون سازی میں تحفظ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے 2018ء کے انتخابات میں لگنے والے اسٹیبلشمنٹ ، پارلیمان اور عدلیہ پر داغ دھل سکیں گے۔2018ء میں آر ٹی ایس متنازع بنا اور اب الیکٹرونک ووٹنگ آر ٹی ایس پلس ثابت ہو گا۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی سب سے پہلی ترجیح انتخابی اصلاحات پر کام کرنا ہو گی۔ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدے میں موجود مطالبات میں میری خواہشات بھی شامل ہیں۔(ن )لیگ کیساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مسلم لیگ ن سے سیاسی، نظریاتی اختلافات ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے، نئے سیٹ اپ میں میرے وزیر خارجہ بننے پر فیصلہ پارٹی کرے گی۔

 

اس وقت ساری توجہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے پر ہے۔صدر مملکت کے مواخذے اور مولانا فضل الرحمن کو صدر بنانے سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔مبینہ خط سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میمو گیٹ کمیشن بھی جمہوریت کے خلاف سازش تھا، خط پر کمیشن کا قیام میمو گیٹ ٹو ہے جو ناکام سازش کی کوشش ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ حکومت نے مراسلے کے معاملے پر وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کمیٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کی، جب یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کے لیے فیصلہ آیا تو ہم بھی ڈپلومیٹک کیبل لہرا سکتے تھے۔بلاول بھٹو نے ڈیل سے متعلق تاثرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی لڑائی لڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے الزامات لگتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں