’’ایک قرارداد جو بظاہر کامیاب ہو رہی تھی، اسے روک کر اسمبلی توڑ دی گئی، یہ اجازت دے دی تو کیا ہٹلر کے نازی جرمنی جیسا ہو گا؟‘‘

اسلام آباد (پی این آئی ) سپریم کورٹ میں سپیکر رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی ، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آگئی ’’ایک قرارداد جو بظاہر کامیاب ہو رہی تھی، اسے روک کر اسمبلی توڑ دی گئی، یہ اجازت دے دی تو کیا ہٹلر کے نازی جرمنی جیسا ہو گا؟‘‘۔

 

تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی ، نیاراستہ کھولا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی ، صدر کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے مگر عدالت پارلیمان کےفیصلےکاجائزہ نہیں لےسکتی، فیصلہ دیا گیا تو پارلیمنٹ میں چھینک بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے لگے گی ، عدالت پارلیمنٹ کے کسی بھی معاملے کو نہیں دیکھ سکتی ، چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہوا تھا ، ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ایوان کے آئینی انتخاب کو بھی استحقاق حاصل ہے ۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کیا وزیر اعظم کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے ؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس رولنگ کے نتیجے میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سپیکر کی رولنگ سے اسمبلی توڑنے کی رکاوٹ دور ہوئی ، آپ کہتے ہیں سپیکر نے غلط کیا تو اسے پارلیمانی انداز میں ہٹائیں ؟۔نجی ٹی وی” دنیا نیوز “کے مطابق دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ سپیکر کو استحقاق حاصل ہے ؟، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کانکتہ دلچسپ ہےکہ سپیکرکی رولنگ غلط ہوتوبھی اسےاستحقاق ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کاہے، جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوسپریم کورٹ مداخلت کرسکتی ہے، پارلیمنٹ کےتقدس کااحترام کرتےہیں، رولنگ کےبعداسمبلی تحلیل کرکےانتخابات کااعلان کیاگیا۔

 

عوام کےپاس جانےکااعلان کیاگیا، ہم مسلم لیگ (ن) کےوکیل سےپوچھیں گےعوام کےپاس جانےمیں کیامسئلہ ہے؟، الیکشن میں جانےسےکسی کےحقوق کیسےمتاثرہورہےہیں؟، بیرسٹرصلاح الدین نےکل ہٹلروالی غلط مثال دی تھی، ہٹلرکےدورمیں جرمن پارلیمنٹ اورحکومت رولنگ کےذریعےبرقراررہی تھی۔ موجودہ کیس میں عوام سےاپیل کی گئی ہےجس میں کوئی برائی نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آمرکبھی الیکشن کااعلان نہیں کرتا۔نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی، یوکےکی پارلیمنٹ کوسپریم کورٹ نےتبدیل کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد،منحرف ارکان سےمتعلق کارروائی کاطریقہ کارآئین میں ہے، آپ کےمطابق پارلیمان کی اکثریت ایک طرف،سپیکررولنگ دوسری طرف ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اکثریت کھونےکےبعدبھی کیاوزیراعظم رہ سکتےہیں؟۔

 

 

کیاصدرمملکت وزیراعظم سےاسمبلی تحلیل کرنےکی وجوہات پوچھ سکتےہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ صدروزیراعظم کی سفارش کےپابندہیں، اسمبلی تحلیل کی سفارش میں وجوہات بتاناضروری نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر پوری پارلیمنٹ اور سپیکر وزیر اعظم کے ساتھ ہو تو پھر کیا ہوگا؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کچھ سوالوں کے جواب نہیں ، اسے آئین میں خلا کہہ سکتے ہیں ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیاکہ سپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے، سپیکر ایوان کا ماتحت ہوتا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر سپیکر ایوان کی بات ماننے سے انکار کر دے تو پھر کیا ہوگا؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہاؤس سپیکر کو اوور رول کر سکتا ہے ۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےمطابق اس کیس میں فورم سپیکرکوہٹاناتھا، پارلیمان اگرایسافیصلہ دےجس کےاثرات باہرہوں توپھرآپ کیاکہتےہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے گی توپارلیمان کاہرعمل عدالت میں آجائےگا، عدالت پارلیمان کےفیصلےکاجائزہ نہیں لےسکتی، عدالت پارلیمان کےباہرہونیوالےاثرات کاجائزہ لےسکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہہ رہے ہیں سپیکرکی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی؟ ، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آئین کےتحت ہرشہری اس کاپابندہے،کیا سپیکر آئین کےپابند نہیں؟ ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی دنوں سے آرٹیکل 5 کا تذکرہ سن رہے ہیں ، آرٹیکل 5 کی شق ٹو واضح ہے کہ ہر شہری آئین پر عملدرآمد کا پابند ہے ، کیا سپیکر اس ملک کا شہری نہیں ، کیا سپیکر نے آئین کے آرٹیکل 95 پر عمل نہ کرکے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں ۔

 

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ روزانہ آئین کی خلاف وزیوں کے واقعات ہوتے ہیں جس پر عدالت میں رٹ دائر ہوتی ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہماری کوشش ہے کہ معاملے کو جلد مکمل کیا جائے ، 16 ویں صدی میں ججز کو پارلیمانی کارروائی میں دخل اندازی پر گرفتار کر لیا گیا ، تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی ، نیاراستہ کھولا۔ ہم چاہتے ہیں آج تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہو جائیں ، ہم اٹارنی جنرل کو سننے کے منتظر ہیں ، نعیم بخاری کو بھی سنیں گے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر میرے دلائل دینے کی ضرورت پیش نہ آئی تو نہیں دوں گا، اب تک جو دلائل دیے جا چکے ہیں ، وہ نہیں دہراؤں گا۔اس سے قبل تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کئے ، بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ کہاں لکھاہےکہ تحریک عدم اعتمادواپس نہیں لی جاسکتی؟، کہاں لکھاہے سپیکرتحریک عدم اعتمادپررولنگ نہیں دے سکتے؟، اگرکہیں لکھانہیں تواسےعدالت پڑھ بھی نہیں سکتی۔

 

تحریک عدم اعتمادنمٹانے تک اجلاس مؤخرنہیں ہوسکتا۔ دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیاتحریک عدم اعتمادکوووٹنگ کےعلاوہ بھی نمٹایاجاسکتاہے؟، بابر اعوان نے کہا کہ پارلیمان کےاپنےرولزہیں وہ کوئی قانونی چارہ جوئی کاادارہ نہیں، سپیکرکی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکرفرائض سرانجام دیتےہیں، اسدقیصرکیخلاف 3 اپریل کومرتضیٰ جاویدعباسی نےعدم اعتمادکانوٹس دیا، سپیکرنےعدم اعتمادکانوٹس آنےپرہی اجلاس کی صدارت نہ کرنےکافیصلہ کیا، قانونی طورپر سپیکراجلاس کی صدارت کرنےکےاہل تھے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سپیکرمرضی سےاجلاس میں نہ آئےتواسےغیرحاضرنہیں کہاجاسکتا۔ بابر اعوان نے کہا کہ رولزمیں لکھاہے سپیکرکسی وجہ سےنہ ہو تو ڈپٹی سپیکرصدارت کریں گے۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیاست میں دادرسی کیاہوسکتی ہے؟، بابر اعوان نے کہا کہ عوام کےپاس جانےسے ہی سیاسی جماعتوں کی دادرسی ہوسکتی ہے، آرٹیکل 63 اےکےتحت نشست خالی ہوگی۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ فلورکراسنگ ہرجماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے، سیاسی جماعتوں کوسوچناہوگاکہ لوگ انہیں کیوں چھوڑکرجاتےہیں، وہی چہرے ہر بار ایک سےدوسری جگہ نظرآتےہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی سپیکرکےحلف میں کیایہ لکھاہےکہ جب انہیں سپیکرکاکام کرناپڑےتووہ کریں گے۔بابر اعوان نے کہا کہ پہلےدن استدعاکی تھی صدارتی ریفرنس پرساتھ ہی سماعت کی جائے، آرٹیکل 94 کےتحت صدروزیراعظم کونئی تعیناتی تک کام جاری رکھنےکا کہہ سکتےہیں ۔

 

بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ تمام جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں ، ایم کیو ایم ، تحریک لبیک پاکستان ، بلوچستان عوامی پارٹی ، پی ٹی ایم ، جماعت اسلامی ، راہ حق پارٹی عدالت کے سامنے فریق نہیں ہیں ، یہ آپ کا از خود نوٹس کیس ہے اور میں نے ہمیشہ از خود نوٹس کیس کی حمایت کی ہے ،عدالت کو بتایا گیا کہ سپیکر کی رولنگ بد نیتی پر مبنی ، آئین کے منافی ہے ، دوسری جانب آرٹیکل 5 کے تحت انہیں غدار کہا گیا ۔بابر اعوان نے کہا کہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ، درخواست گزار چاہتے ہیں کہ سلامتی کمیٹی کا حوالہ نظر انداز کیا جائے ، اپوزیشن چاہتی ہے کہ عدالت ان کے حق میں فوری مختصر فیصلہ دے ، آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا ، انگلینڈ کے آئین سے کیسے کیا جا سکتا ہے ؟۔ آرٹیکل 63پر کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔

 

ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ، ایک سیاسی جماعت مرکز ، پنجاب ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان میں اکثریتی پارٹی ہے، کیس میں جس برطانوی عدالت کےفیصلےکاحوالہ دیاگیاوہ کیس میں لاگونہیں ہوتا، کیاسندھ ہاؤس اورلاہورکےہوٹل میں جوہوااسےنظراندازکیاجاسکتاہے؟، اراکین اسمبلی کےکردارپرقرآن وسنت اورمفتی تقی عثمانی کانوٹ بھی دوں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈپٹی سپیکرکی رولنگ سےایک نتیجہ اخذکیاگیا، ڈپٹی سپیکرنےکس موادپراختیاراستعمال کیا، عدالت کےسامنےحقائق کی بات کریں، یہ دیکھنا ہے کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ ہاؤس میں ایجنڈےسےہٹ کرکسی فیکٹ پرجاسکے،عدالتیں قانون کےمطابق چلتی ہیں،اس کیس میں ایک الزام لگایاگیا،ہم کسی تنازع پرنہیں جاناچاہتے، ڈپٹی سپیکرنےایک اقدام کیاہے،بنیادی چیزیعنی حقائق پرآئیں، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیاہےجس کی بنیادپررولنگ دی گئی؟۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اعلیٰ سطح سفارتکارنےدوسرےملک کی نیشنل سکیورٹی کونسل کاپیغام 3افرادکوپہنچایا۔

 

سفارتخانے کے ذریعے ہیڈ آف مشن،ڈپٹی ہیڈ آف مشن،دفاعی اتاشی کوپیغام دیاگیا، ہمارےسفارتکاروں کی بیرون ملک ملاقات کےبعد 7مارچ کومراسلہ آیا۔ میٹنگ ہوتی ہےاوراس کاسائفر 7 مارچ کوپاکستان میں آتاہے، میٹنگ میں ڈپٹی ہیڈآف مشن،ڈیفنس اتاشی سمیت 3 ڈپلومیٹس شامل تھے۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے ڈی سائفر کا لفظ استعمال کیا ہے ، کیا وہ معلومات کوڈز میں آئی ہیں یا سربمہر لفافے میں؟۔ بابر اعوان نے کہا کہ میں اسے یوں کہہ لیتا ہوں کہ ہمارا فارن آفس اس پر نظر ڈالتا ہے، ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں فارن سیکرٹری دستیاب نہیں ہوتے، سائفر سے نوٹس بنا کروزارت خارجہ امور وفاقی کابینہ کو بریف کرتی ہے، میں ایک بریف بنا کر لایا ہوں جسے ان کیمرا سماعت میں دکھا سکتا ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہوا تھا ، بابر اعوان نے جواب دیاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا ، پارلیمانی لیڈر نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا ، میٹنگ کے منٹس نعیم بخاری پیش کرینگے ،میٹنگ میں کہا گیا ایک ملک نے پاکسان کے معاملے میں مداخلت کی ، احتجاجی مراسلہ جاری یا جائے ، احتجاجی مراسلہ دو جگہ جاری ہوا ، ایک پاکستان میں اور دوسرا خفیہ کوڈ والے ملک میں ، سینئر اینکرز کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کا وہی موقف ہے جو کمیٹی نے کہا ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین کے تحت ہر شہری کی وطن سے وفاداری لازمی ہے۔

 

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے کہ وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں ، کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا ؟، اگر ایسا ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ؟۔بابر اعوان نے کہا کہ میں اس معاملے میں محتاط ہو کر دلائل دے رہا ہوں ، پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھیجوایا ، ھکومت نے کسی کو غدار کہا نہ ہی ایکشن لیا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سپیکر پاور اور ریگولیٹری اختیارات الگ الگ ہیں ، کیا رول 28 میں ڈپٹی سپیکر شامل ہیں یا نہیں ؟، بابر اعوان نے جواب دیا کہ ڈپٹی سپیکر رول 28 میں شامل ہیں مگر فوری کہا کہ نہیں ! میں پہلے جلدی میں ہاں کہہ گیا ہوں ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ جواب میں ناں بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جواب ہاں یا ناں میں دیں ، ڈپٹی سپیکر رول 28 میں آتے ہیں یا نہیں ، بابر اعوان نے جواب میں نو کمنٹس کہہ دیا۔

 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد زیر التوا ہو تو وہ سیشن پریزائیڈ کرسکتاہے ؟، بابر اعوان نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہےاس کاجواب بہترہوگا سپیکرکےوکیل دیں، سندھ ہاؤس اورلاہورکےہوٹل میں جوہوااس پربات کروں گا، رکن اسمبلی کیلئےدیانتدارہوناضروری ہے، ایک اپوزیشن رہنمانےکہاہاں ہم نےہارس ٹریڈنگ کی، لاہورمیں 40 پی ٹی آئی ارکان کوہوٹل میں بندرکھاگیا، 3اراکین نےنکلنےکی کوشش کی توگارڈزنےمارا، پیپلزپارٹی چیئرمین نےبھی کہاوہ الیکشن کیلئےتیارہیں، الیکشن کے نتیجےمیں ملک ٹوٹ گیا، بھارت اوربنگلادیش نےای وی ایم کاراستہ نکالامگرہم نہیں مانتے، اگریہاں سےراستہ بنناہےتومیں سعادت سمجھتاہوں کہ اس تاریخ کاحصہ بنوں، ڈیڈلاک روکنےکیلئےآپ نےازخودنوٹس لیااورکہاکوئی ماورائےآئین کام نہیں ہوگا۔جسٹس منیب نے ریمارکس دئیے کہ ہم نےآئین کےتحفظ کاحلف اٹھایاہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں