اسلام آباد(پی این آئی) نئی حلقہ بندیوں کے بغیر آئندہ عام انتخابات غیر قانونی ہوں گے جب کہ انتخابات کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ملک بھر میں عام انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو تاحال سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت پر الیکشن کمیشن باضابطہ اجلاس بلا کر فیصلہ کرے گا۔الیکشن کمیشن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج نئی حقلہ بندیوں کا ہو گا کیونکہ آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت پورے ملک میں نئی حد بندی ضروری ہے۔
مردم شماری 2017 کے نوٹیفکیشن اور فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنا لازم ہو گا جب کہ سندھ میں نئے اضلاع کی تشکیل کی وجہ سے بھی نئی حلقہ بندیاں کرنا لازم ہوگا۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق مردم شماری 2017 کے بعد قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 272 سے کم کر کے 266 کر دی گئی۔دوسری جانب ایوانِ صدر کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خط لکھ دیا گیا جس میں الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کیلئے تاریخ دینے کا کہا گیا ہے ۔ خط میںکہاگیاکہ آئین کے آرٹیکل 48 5(A) اور آرٹیکل 224 (2) کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کریں گے ۔
خط کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔خط کے مطابق عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کیلئے الیکشن ایکٹ ، 2017 ء کے تحت الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے ۔یاد رہے کہ 3 اپریل کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیرملکی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے صدر کو سمری ارسال کر دی ہے اور پھر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں