اسلام آباد (پی این آئی )سپریم کورٹ میں ملک کی موجودہ آئینی و سیاسی صورتحال پر از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیا کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔بینچ نے 3 اپریل کی قومی اسمبلی کی کارروائی کیخلاف دائر متحدہ اپوزیشن کی درخواست پر سماعت کی۔
اپوزیشن کاکہنا ہے کہ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرواکر اور تحریک کو مسترد کرکے غیر آئینی کام کیا لہٰذا 3 اپریل کی قومی اسمبلی کی کارروائی کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کی جائے۔متحدہ اپوزیشن کی جانب سے فاروق ایچ نائیک کیس کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان ہیں۔3 اپریل کو قومی اسمبلی کی کارروائی کے فوری بعد عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم صدر مملکت عارف علوی کو
اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی جس پر عمل کرتے ہوئے صدر نے اسمبلی تحلیل کردی۔اس صورتحال پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور بعد ازاں متحدہ اپوزیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواستوں کو یکجا کرکے اس پر سماعت کی جارہی ہے۔سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں وکلاء اور سیاسی شخصیات بڑی تعداد میں موجود تھے اور عدالت کے کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ایک بج کر 20 منٹ پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی
سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقررہ وقت سے 20 منٹ تاخیر سے آیا۔سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نےاستدعا کی کہ صدراتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے، عمران خان نے اجازت دی ہے کہ یہ عرض کروں الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے سیاسی بیانات مت دیں۔اس موقع پر اپوزیشن کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے درخواست کی کہ اس کیس میں اہم آئینی سوالات بھی ہیں، فل کورٹ بنایا جائے
لیکن چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کون سے آئینی سولات پرفل کورٹ کی ضرورت ہے؟ اگر آپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں،ہم اٹھ جاتے ہیں، ایک مقدمے پر 2 سال تک فل کورٹ کی وجہ سے 10 لاکھ کیسز کا بیک لاگ ہو گیا ، اگرآپ کے پاس میرٹ پر کہنے کو کچھ ہے تو ٹھیک ورنہ ہم اٹھ جاتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا رولز کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر 3 دن بحث ہونا تھی، اسپیکر نے بحث کیلئے کون سا دن دیا؟
ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ووٹنگ سے پہلے بحث کرانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اسپیکر نے اجازت نہیں دی،اختیارات سے تجاوز کرکے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا تو ’پروسیجرل‘ غلطی ہوئی۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر صرف پریزائیڈنگ افسر تھے، رولنگ جس خط کو بنیاد بنا کر دی گئی اسے پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھا گیا،
رولنگ یہ کہہ رہی ہے کہ 198 ارکان قومی اسمبلی غدار وطن ہیں، تین منٹ سے کم وقت میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کی گئی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جذباتی باتیں نہ کریں، یہ بتائیں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ غیرقانونی کیسے ہے؟اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت تحریک کے حق میں ووٹ دے تو وزیراعظم عہدے سے فارغ ہوجاتا ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئینی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے
استفسار کیا کہ آپ کا مدعا یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو غیرقانونی پہلے قرار دیا جا سکتا تھا،3 اپریل کو صرف ووٹنگ ہوسکتی تھی،مسترد نہیں کی جا سکتی تھی؟ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکرکے پاس رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا؟ اسپیکر کا اسمبلی کارروائی چلانے میں اہم کردار ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کہ اسپیکرکسی بھی قرارداد کی قانونی حیثیت کب دیکھ سکتا ہے؟ کون سے مقام پر اسپیکر تحریک کے
قانونی یا غیر قانونی ہونے پر رولنگ دے سکتا ہے؟ اسپیکرکے پاس کیا کوئی اختیارات نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرسکے؟ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کو کس حد تک آئینی تحفظ حاصل ہے؟فاروق نائیک کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا آپ جو کیس لے کر آئے ہیں یہ واضح طور پر پارلیمنٹ کی کارروائی سے متعلق ہے، اسمبلی کے اندرکی کارروائی میں سپریم کورٹ کیسے
مداخلت کر سکتی ہے؟اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ آرٹیکل69 کی زبان میں اگر اسپیکر پروسیجرل غلطی کرے تو اس کو تحفظ حاصل ہے، ہمارا کیس اسپیکر کی پروسیجرل غلطی کا نہیں آئینی خلاف ورزی کا ہے، رولنگ میں لکھا گیا ہے کہ ممبران کا تعلق بیرون ملک سازش سے ہے، اگراسپیکر کی رولنگ کو مسترد نہ کیا گیا تومستقبل میں سنگین نتائج ہوں گے، صدر نے عبوری حکومت کے قیام تک عمران خان کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کردیا ہے، عدالت جلد فیصلہ دے۔
فاروق نائیک کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلد فیصلہ دینا چاہتے ہیں لیکن ہم ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے، عدالت مناسب حکم دے گی۔ اسپیکر رولنگ میں کہا گیا کہ سفارتی خط سے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کو شرکت کا کہا گیا لیکن اپوزیشن نہیں گئی، پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمانی کارروائی کا کیا تعلق ہوتا ہے یہ بھی بتائیے گا۔علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے ووٹنگ کے معاملے پر ن لیگ کے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے پنجاب اسمبلی میں
وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے 6 اپریل کو ووٹنگ کرانے کا حکم دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وزیراعلٰی کے انتخاب سے متعلق ہدایات لے کر جواب جمع کرائیں۔بعد ازاں ازخود نوٹس کیس کی مزید سماعت منگل دن 12 بجے تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں