لاہور(پی این آئی) گزشتہ روز متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے چند گھنٹے بعد ہی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک اہم فیصلہ کیا گیا، انہوں نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیااور قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ہنگام مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل کر لی۔
قبل ازیں چوہدری پرویز الہٰی کی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہو چکی تھیں اورچوہدری پرویز الہٰی ایسے بیانات دے چکے تھے، جن سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپوزیشن کی حمایت میں جائیں گے تاہم گزشتہ روز ان کے اچانک حکومت کا ساتھ دینے کے فیصلے پر اپوزیشن کو شدید جھٹکا لگا ہے اور اپوزیشن جماعتیں یہ کھوج لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ آیا ق لیگ کی حمایت کھو دینے کا موردالزام کسے ٹھہرایا جائے۔انگریزی اخبارنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور نائب صدر مریم نواز کو الزام دیا جا رہا ہے کہ ان کی وجہ سے متحدہ اپوزیشن مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے مسلم لیگ ق کے مطالبات پرزیادہ لچک نہیں دکھائی، جس کی وجہ سے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ق لیگ کو مناسب پیشکش نہیں کی جا سکی، چنانچہ حکومت کی طرف سے بہتر پیشکش آنے پر ق لیگ نے حکومت کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔
متحدہ اپوزیشن ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (پی ڈی ایم)کے ایک سینئر رہنماء نے ڈیلی ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنماء ق لیگ کے معاملے پر لچک نہ دکھانے پر مریم نواز سے سخت ناخوش ہیں۔ ق لیگ کی طرف سے پی ڈی ایم سے جو مطالبات کیے گئے تھے، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ان مطالبات پر متفق ہو گئے تھے تاہم نواز شریف اور مریم نواز ان مطالبات کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔ انہوں نے چوہدریوں کو پیغام دے دیا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو تین سے پانچ ماہ کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد نئے الیکشن کروا دیئے جائیں گے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی طرف سے چوہدری پرویز الہٰی کو حکومت کی باقی مدت کے لیے وزیراعلیٰ بنانے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول کر لی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں