ماں کی جان بچانے کیلئے 23سالہ بیٹے طوطا خان نے اپنا جگر ماں کو عطیہ کر دیا لیکن چنددن بعد ہی ایسا کیا ہوا کہ طوطا خان کی جان بھی چلی گئی؟ رُلا دینے والا سچا واقعہ

کوئٹہ (پی این آئی)ڈیرہ بگٹی کے23سالہ طوطا خان بگٹی نے موت کے دہانے پر موجود اپنی بیمار ماں کی جان بچانے کے لیے انہیں اپنا جگر عطیہ کیا۔ جگر کی پیوند کاری کامیاب ہوئی اور ماں کو نئی زندگی مل گئی مگر جواں سال بیٹا خود جان کی بازی ہار گیا۔ڈاکٹر کے مطابق 20 دن قبل کیا گیا آپریشن کامیاب رہا مگر طوطا خان کو کورونا کی بیماری لاحق ہوئی جو موت کی وجہ بنی۔طوطا خان بگٹی کے بھائی عبدالغفور بگٹی نے بتایا کہ ’تین دن گزرنے کے باوجود ہم نے ماں کو بھائی کی موت کی خبر نہیں دی۔

 

وہ بار بار بھائی کا پوچھتی ہے مگر ہم انہیں یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ طوطا خان ٹھیک ہے، لیکن ڈاکٹر نے ملنے اور فون پر بات کرنے سے منع کیا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ہمیں جہاں بھائی کے کھونے کا صدمہ ہے وہاں اس بات کا فخر بھی ہے کہ طوطا نے ماں کے لیے اپنی جان قربان کردی۔عبدالغفورنے بتایا کہ طوطا چار بہن بھائیوں میں دوسرے نمبرپر تھا اور وہ والدہ کے بہت قریب تھا۔ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ والدہ کا جگر کام نہیں کررہا اور لیور ٹرانسپلانٹ (جگر کی پیوند کاری ) کے سوا کوئی حل نہیں تو طوطا خان سب سے پہلے تیار ہوا کہ وہ ماں کو اپنا جگر عطیہ کرے گا۔طوطا کے ماموں عطاء اللہ نے بتایا کہ 28 فروری کو سندھ کے ضلع خیر پور میں گمبٹ انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے ماں اور بیٹے کا آپریشن ہوا۔ آپریشن کامیاب رہا اور ماں کی جان بچ گئی۔ طوطا کی طبیعت بھی پہلے دو دن ٹھیک رہی اور اس نے والدہ سے ویڈیو کال پر بات بھی کی۔

 

مگر دو دنوں کے بعد طوطا کی طبیعت اچانک بگڑنا شروع ہوئی اور اسے تین دن تک وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ اس کے بعد اس کی طبیعت پھر کچھ بہتر ہوئی مگر اسے شدید کھانسی تھی۔ہوش میں آنے کے بعد طوطا نے کہا کہ ’ماں کو نہیں بتانا کہ میری طبیعت خراب ہے وہ پریشان ہوجائے گی۔‘عطاء اللہ کے مطابق تین دن قبل طوطا کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی اور اس نے ہسپتال کے بستر پر ہی جان دے دی۔لیور ٹرانسپلانٹ کرنے والے گمبٹ ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر نے بتایا کہ آپریشن سے قبل تمام ضروری ٹیسٹ کرائے گئے تھے۔ جگر کی کامیاب پیوند کاری کی گئی مگر آپریشن کے بعد ڈونر (طوطا خان ) کو کورونا انفیکشن ہوا جس سے اس کے پھیپڑے شدید متاثر ہوئے اور وہ تقریباً بیس دنوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہسپتال میں اب تک 600 لیور ٹرانسپلانٹ ہوچکے ہیں مگر جگر عطیہ کرنے والے کسی بھی شخص کی یہ پہلی موت ہے۔

 

ڈاکٹر عبدالوہاب کے مطابق جگر عطیہ کرنے والے کی موت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق اس کا امکان صرف صفر عشاریہ پانچ فیصد ہے۔عبدالغفور نے بتایا کہ ’ہمارے والد کا 15 سال پہلے انتقال ہوا۔ ہم چار بہن بھائی کم عمری میں ہی یتیم ہوئے۔ طوطا کی عمر اس وقت صرف آٹھ یا نو سال تھی۔ غربت کے باعث ہم تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری بیوہ ماں نے کشیدہ کاری کرکے ہمیں پالا اور کچھ مدد ماموں اور باقی رشتہ دار کرلیتے تھے۔‘عبدالغفور کے مطابق ’طوطا بڑا ہوا تو مزدوری شروع کی مگر سوئی چھوٹا سا شہر ہے اور یہاں اکثر کام نہیں ملتا۔ طوطا پچھلے کئی سالوں سے سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں ٹیکسی چلاتا ہوں جس سے بمشکل گھر کا گزارا ہوتا ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’ماں کئی سالوں سے بیمار رہتی تھی۔ تین سال قبل انہیں ہیپٹائٹس بی کی تشخیص ہوئی مگر ہم غربت کے باعث بروقت اور مناسب علاج نہیں کراسکیں جس کی وجہ سے ان کی بیماری نے شدت اختیار کرلی۔‘عبدالغفور کے بقول ’ہم ادھار مانگ کر علاج کراتے رہے۔

 

ڈیرہ بگٹی میں علاج کی مناسب سہولیات نہیں اس لیے ہم والدہ کو سندھ لے جاتے تھے۔ کئی بار تو ہمارے پاس علاج تو دور کرایے کی رقم بھی نہیں ہوتی تھی۔ بیت المال کے پاس گئے تو انہوں نے کئی مہینوں کے بعد صرف پچاس ہزار روپے کا چیک دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اب بھی ہم نے والدہ کا علاج حکومت بلوچستان کے انڈومنٹ فنڈ کی مدد سے کرایا جس کے لیے ہم نے کئی مہینوں تک کوئٹہ میں سرکاری دفاتر کے چکر لگائے۔ ایک خاتون رکن اسمبلی نے ہماری مدد کی اور لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے حکومتی فنڈز منظور کرائے۔‘عبدالغفور کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم والدہ کا بروقت علاج کروا لیتے تو شاید ٹرانسپلانٹ کی ضرورت نہیں پڑتی اور ہمارا بھائی آج زندہ ہوتا۔‘

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں