لاہور(پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء کامل علی آغا نے کہا ہے کہ حکومتی ٹیم نے کہا وزارت اعلیٰ کیلئے ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کردیں، سینئرقیادت سے اس طرح کی گفتگو غیرسنجیدگی ہے، حکومتی ٹیم سینئر لیڈرشپ کو بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں، بات ٹھوس تجویز کے ساتھ ہونی چاہیے، ہمارا فیصلہ سسٹم کے فائدے کیلئے ہوگا۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیڈرشپ کوالٹی بڑی بات اور لیڈرشپ کے فیصلوں میں وزن ہوتا ہے اور فیصلے دیرپا ہوتے ہیں۔
حکومت فیصلہ کررہی ہے کہ جس دن عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوگی اس دن جلسہ کریں گے، میں سمجھتا ہوں حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔معذرت کے ساتھ لیڈرشپ کا انداز گفتگو میچور ہوتا ہے لیکن حکومت کی جتنی ٹیمیں ہمارے پاس آئی ہیں وہ ہمیں بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں، کوئی ٹھوس تجویز نہیں ہوتی بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو بچوں کی طرح کھیلانا ہے، حکومت کی طرف سے ابھی تک سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی، حکومت آفر کررہی ہے کہ ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کردیں اور وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جلدی میں کیے گئے فیصلے سے سسٹم کیلئے نقصان ہو سکتا ہے، ہم جو فیصلہ کریں گے وہ سسٹم کے فائدے کے لیے ہوگا، ہم چاہتے ہیں نظام بھی چلے اور امن بھی رہے، چاہتے ہیں فیصلے پارلیمان کے اندر ہوں۔ کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کریں۔
کہا گیا ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کیا تو وزیراعلیٰ شپ دینے کو تیا رہیں، سینئر قیادت سے اس طرح کی گفتگو کرنا ان کی غیرسنجیدگی ہے۔اسی طرح مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے اے آروائی کے پروگرا م میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ سارے معاملات طے ہوگئے ہیں یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ابھی تک کچھ طے نہیں ہوا کہ حکومت کے ساتھ ہیں یا اتحادیوں کے ساتھ ہیں۔اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتوں میں ساری چیزوں پر بات چیت ہورہی ہے،حکومت ہو یا متحدہ اپوزیشن اپنے کارڈ کوئی بھی سامنے نہیں لا رہا، ایک بات طے ہے اتحادیوں کے بغیر حکومت یا اپوزیشن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوگا۔موجودہ صورتحال میں اتحادی جماعتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔اپوزیشن نے کہا پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں،وزیراعلیٰ بننا ق لیگ کی شرط نہیں ہے، ق لیگ کو لگتا ہے اسمبلیوں کو مدت پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کون کیا چاہتا ہے ابھی تک تو بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے، ایم کیوایم اور بی اے پی کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟ کسی کو کچھ پتا نہیں۔
یم کیوایم کی پیپلزپارٹی سے بات چیت ہوئی ہے،پتا چلا ہے کہ آصف زرداری نے ان کے تمام نکات کو تسلیم کیا ہے۔ ایم کیوایم کے مسائل سندھ کے شہری علاقوں میں ہیں، بی اے پی کے مسائل بلوچستان میں ہیں، مسلم لیگ ق پنجاب میں اپنے عوامی مسائل کو مدنظر رکھ کر بات چیت کررہی ہے۔ مسلم لیگ ق کا مزید مار کھانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، ساڑھے تین سالوں میں مار ہی پڑی ہے، کوشش ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں ابھی تک اپنا پتا نہیں ہے کہ کس طرف جا رہے ہیں؟ ہمیں کسی کا کیا پتا ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں