اسلام آباد(پی این آئی )سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکرپرسن سلیم صافی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ پارٹی بلاشبہ عمران خان کی ہے۔ وہ اس جماعت کے بانی اور بادشاہ ہیں۔ سب کچھ ان کی ذات کے گرد گھوم رہا ہے۔ اب عملاً اس پارٹی کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ منشور۔ واحد تقاضا عمران خان کی وفاداری اور ان کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنا ہے۔ ان معیارات پر فیصل جاوید، شہباز گل اور شبلی فراز وغیرہ پورا اترتے ہیں، چنانچہ وہ ساتھ ہیں اور جو لوگ اکبر ایس بابر،
جاوید ہاشمی، ندیم افضل چن اوراحمد جواد وغیرہ کی طرح تنقید کی ہمت رکھتے تھے، وہ ساتھ چھوڑ گئے۔ اب بس عمران خان اور ان کے نورتن حکمران ہیں یا پھر محمود خان اور عثمان بزدار جیسے لوگ، جن کی سفارش مضبوط ہے۔مکرر عرض ہے کہ پی ٹی آئی کا محور و مرکز عمران خان کی ذات ہے۔ بطور کرکٹر وہ بہت بڑے سیلیبرٹی تھے۔انہوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ ورلڈ کپ، جو پوری ٹیم کی جیت تھی، کو صرف اپنے نام کرکے اس کارڈ کو خوب استعمال کیا۔
پھر اس حیثیت کو استعمال کرکے گولڈا سمتھ خاندان میں شادی کرکے خودکو عالمی سطح پر مضبوط کیا اور بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا۔پھر ان سب حیثیتوں کو شوکت خانم کی تعمیر اور بعدازاں بڑی مہارت کے ساتھ سیاست کے لیے استعمال کیا۔ یوں وہ پاکستانی عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے محبوب لیڈر بن گئے لیکن جب تک اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اٹھانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ ہمسفر نہیں بنے تھے، تب تک وہ اس مقبولیت کومیدان
سیاست میں کیش نہیں کرسکتے تھے۔ ویسے تو شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اسی طرح کے سینکڑوں اورلوگ بھی شامل کروائے گئے لیکن ان میں اکثر یا تو صرف شاہ محمود کی طرح حلقے کی حد تک الیکٹ ایبلز تھے یا پھر اسد عمر کی طرح شاطر اور اپنی مارکیٹنگ کے ماہر تھے۔جہانگیر ترین اور علیم خان پیسہ خرچ کرنے والے تھے جبکہ یار محمد رند تجربہ کار سیاستدان اور رند قبیلے کا سردار ہونے کے ناتے پورے بلوچستان کے صدر بنائے گئے۔ ان میں اہم ترین کردار
جہانگیر ترین ہی تھا۔ ایک تو انہوں نے بے دریغ پیسہ لگایا۔ دوسرا وہ میڈیا اوراسٹیج کی بجائے ڈرائنگ روم کی سیاست کے ماہر ہیں۔ تیسرا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوآرڈینیٹر بھی وہ تھے۔اس لیے پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبلز کو لانے اور ان کے ساتھ ڈیل کرانے میں بنیادی کردار انہوں نے ادا کیا تھا۔ دوسرے نمبر پر علیم خان نے پیسہ لگایا جبکہ یار محمد رند نے بھی اربوں روپے لٹائے اور بلوچستان کے صدر کی حیثیت سے وہاں پارٹی کو پہچان دی۔ انتخابات سے قبل یہ تینوں اور اسی قسم کے
لوگ ہی اہم ترین تھے۔ہر کسی کو یقین تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد دوسری اہم پوزیشن جہانگیر ترین کی ہوگی لیکن انہیں الیکشن سے قبل سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل کروا دیا گیا اور چند روز بعد ان پر واضح ہوگیا کہ اس سازش میں خود عمران خان بھی شریک تھے۔ وہ دُکھی تو بہت ہوئے لیکن پھر بھی عمران خان سے چمٹے رہے۔ الیکشن کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لیے بھی انہوں نے ہی کلیدی کردار ادا کیا۔اسد عمر یا شاہ محمود قریشی ایک ممبر بھی نہیں لاسکے
لیکن جہانگیر ترین جہاز بھربھر کر لوگوں کو لاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی طرح سزا یافتہ ہونے کے باوجود عمران خان نے انہیں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بٹھا کر تمام وزارتوں کا نگران بنایا تھا۔ کئی لوگ ان کی مہربانی سے وزیر بنے تھے۔ خود وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی جہانگیر ترین کے ذریعے عمران خان سے ملے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد اعظم خان، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے ترین کےلیے ایسا ماحول بنایا کہ زلفی بخاری کے ذریعے
ایک مخصوص جگہ سے ان کی چھٹی کرانے اور گھیرنے کا فرمان صادر ہوا۔ ایسا نہیں کہ چینی کے معاملے میں جہانگیر ترین کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن باقی سب کو معاف کرکے صرف ان کو پھنسایا گیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے ٹیلی فون ٹیپ کروائے گئے۔ ان کے گھر کی نگرانی کے لیے خفیہ کیمرے نصب کروائے گئے۔ ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف بھی کیسز بنائے گئے۔جہانگیر ترین ایک ذہین انسان ہونے کے ناتے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے
جو اب آگیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران عمران خان نے انہیں فون کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ باقی سب کچھ بھلا بھی دیں تو ایک سرائیکی پٹھان ہونے کے ناطے اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ سلوک کو کیسے بھلاسکیں گے؟ اس لیے میرے نزدیک وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ عمران اور ترین کی سابقہ دوستی بحال ہوجائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں