اسلام آباد(پی این آئی) وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے حزب اختلاف کی ریکوزیشن پر سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اپوزیشن کے سرپرائزدے سکتے ہیں کیونکہ ابھی بھی ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہے قومی روزنامے اسلام آباد کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار شہزاد فاروقی نے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق مقتدر حلقے اگرچہ غیرجانبدار ہیں مگر نومبر میں وقوع پذیر ہونے والی بعض بڑی تبدیلیوں اور ملکی وبین القوامی حالات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی.
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو تحریک کی کامیابی کے لیے 172ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ انہوں نے جو تحریک جمع کروائی ہے اس پر140اراکین قومی اسمبلی کے دستخط ہیں حالانکہ اپوزیشن اتحاد کے اراکین کی کل تعداد162ہے ‘ماضی میں عدم اعتماد کی تحریکوں میں دیکھا گیا ہے کہ کئی اراکین منحرف ہوکر بیان دے دیتے ہیں کہ تحریک پر دستخط ان کے نہیں ہیں تو اپوزیشن کو کسی ایسی صورتحال کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ تحریک عدم اعتماد کو ”ڈی فیوز“کرنے کے لیے ایسے بیانات سامنے آسکتے ہیں جس سے عدم اعتماد کی پوری تحریک متاثر ہوسکتی ہے.شہزاد فاروقی نے کہا کہ قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلایا جانا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے کئی اہم شعبے مرمت و تزئین و آرائش کے لیے بند ہیں جن کا رواں ماہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے اجلاس سے قبل کھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے جبکہ اپریل میں رمضان المبارک شروع ہوجائے گا لہذا فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نظرنہیں آرہی پنجاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں ممکنہ طور پر ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے اور تحریک انصاف میں سے کسی رکن کو عثمان بزدار کی جگہ پنجاب کا وزیراعلی بنایا جاسکتا ہے.
میاں محمد ندیم کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے دستخطوں میں حزب اختلاف کے22اراکین غائب ہیں جبکہ انہیں تحریک کو کامیاب کروانے کے لیے حکومتی بنچوں سے 10ووٹوں کی ضرورت ہے تو ایسی صورتحال میں 22اراکین کے دستخط نہ ہونا معنی خیزہے انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی ‘ پارلیمان کی عمارت کی تزئین وآرائش کے لیے بند ہونے سے جو وقت ملے گا اس کا فائدہ حکومت کو ہوگا کیونکہ انہیں ناراض اراکین کو منانے اور جوابی حکمت عملی طے کرنے کے لیے مزید وقت ملے گا .انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کے اندر بھی اعتماد کا فقدان ہے خصوصا دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر اعتماد کے کرنے کو تیار نہیں ہیں اور حکمران اتحاد کی طرح اپوزیشن کے اتحاد میں بھی دراڑیں موجود ہیں انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں حزب اختلاف کا امیج بری طرح متاثر ہوگاجبکہ وزیراعظم کو اس کا فائدہ ہوگا .
میاں ندیم نے کہا کہ ہماری سیاست میں بدقسمتی سے ”ووننگ ہارسز“کہلانے والے سیاست دانوں کا بہت بڑا کردار ہے جو اپنے حلقوں سے نسل در نسل جیت کر آرہے ہیں ان کے نزدیک سیاسی جماعتیں انہیں سیٹیں نہیں دیتیں بلکہ وہ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ لے کر ان پر احسان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ دیکھ لیں حکومتیں ”ووننگ ہارسز“کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی آئی ہیں عمران خان اگر حقیقت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ترقیاتی فنڈز اسمبلیوں کی بجائے ضلعی حکومتوں کا نظام بناکر ان کے حوالے کردیں اور پیسے کو پارلیمان سے نکال دیں تو صورتحال بدل سکتی ہے ورنہ ہمیں 73سالوں سے جہاں کھڑے ہیں وہیں کھڑے رہیں گے.انہوں نے 2005میں عمران خان سے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 17سال پہلے انہیں کہا تھا کہ انقلابی تبدیلی کے لیے انہیں ”ووننگ ہارسز“سے دور رہنا ہوگا مگر انہوں نے اسی غلطی کو دہرایا جو کہ ماضی میں سیاسی جماعتیں کرتی آئی ہیں.
سنیئرصحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل رانا محمد عظیم نے ”اردوپوائنٹ“سے گفتگو کے دوران کہا کہ اگرچہ ملک میں بے یقینی کی صورتحال ہے مگر انہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظرنہیں آرہی انہوں نے میاں ندیم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں حزب اختلاف بہت بڑا سیاسی دھچکا پہنچے گا اور ممکنہ طور پر تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے لیے آئندہ عام انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی.ادھر تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کی ریکوزیشن سے متعلق پیپلزپارٹی کے راہنما پیپلز پارٹی نوید قمر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 140 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط کے ساتھ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں. رولزکے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کو تحرک عدم اعتماد پر 7 روز کے اندر کارروائی کرنی ہوگی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی کو اپنے اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے، جن میں تحریک انصاف کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے.
دوسری جانب حزب اختلاف کے کل ارکان کی تعداد 162 ہے، ان میں مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں جماعت اسلامی کا ایک رکن قومی اسمبلی میں ہے جس نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ وہ حکومتی بنچوں کے ساتھ جائیں گے یا حزب اختلاف کے ساتھ.قبل ازیں اسلام آباد میں ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی آخری واردات ہوگی اور ہم ان کو ایسی شکست دیں گے کہ یہ 2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے انہوں نے کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ مزید تگڑی ہوکر آئے گی، میں خوش ہوں کہ یہ ان کی آخری واردات ہوگی اور ہم ان کو ایسی شکست دیں گے کہ یہ 2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے.انہوں نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پھر کیا ہوگا، اس وقت مائنڈ گیم چل رہی ہے اور میں مائنڈ گیم کا ماسٹر ہوں عثمان بزدار ایک آسان ٹارگٹ ہے اور وہ صرف ان کو برے لگتے ہیں جو وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو میں جانتا ہوں وہ کبھی چوروں کے ساتھ نہیں ملیں گے.
انہوں نے کہا کہ ایسے ہی اتنا شور نہیں مچا ہوا، ہر جگہ پیسہ چلا ہوا ہے، ارکان کو 18، 18 کروڑ روپے کی آفرز کی جارہی ہیں، یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں نے ارکان کو پیسے دیے، کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ میں نے ارکان سے کہا کہ ان سے پیسے لیں اور غریبوں میں بانٹ دیں.عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کے پیچھے ایک ہاتھ نہیں، کئی بیرونی ہاتھ ہیں، جو لوگ آزاد خارجہ پالیسی نہیں دیکھنا چاہتے وہ ان کو سپورٹ کرتے ہیں، ہمارے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، میں نہ تو امریکا کا مخالف ہوں نہ بھارت کا بلکہ ان کی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہوں. انہوں نے کہا کہ کپتان ایک دم اپنی حکمت عملی نہیں بتاتا میں نے ساری تیاری کر رکھی ہے فوج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ کبھی ان چوروں کا ساتھ نہیں دے سکتے اپوزیشن کے ساتھ عوام نہیں تو اب یہ کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے.ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے امریکا، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالے لیکن اسے وقت آنے پر دیکھیں گے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نومبر بہت دور ہے جب وقت آئے تو فیصلہ کریں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں