اسلام آباد(پی این آئی )پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادی فوری انتخابات کی مخالفت کررہے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمان فوری انتخابات کے حامی ہیں۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت گرانے کی حکمت عملی میں اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات سامنے آگئے ہیں، کیوں کہ مسلم لیگ ن ار مولانا فضل الرحمان فوری انتخابات کے حامی جب کہ پیپلزپارٹی اور حکومتی اتحادی عام انتخابات کی مخالفت کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق حکومت کے خلاف اپوزیشن کا وار
حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے، اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا اہم اجلاس آج ہورہا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف، مریم نواز اور نواز شریف حکومت مخالف تحریک کو فائنل ٹچ دیں گے، اور تحریک عدم اعتماد، اعتماد کا ووٹ، لانگ مارچ سمیت دیگر آئینی و قانونی راستوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہوگا۔پارٹی ذرائع کے مطابق آج ہونے والے اہم اجلاس میں حکومت گرانے کے لئے تعاون کے بدلے میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی
جانب سے کئے گئے مطالبات کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوگا، سابق صدر آصف علی زرداری تاحال حکومتی اتحادیوں کے اپوزیشن کی تحریک میں شامل نہ ہونے کی وجوہات بارے آگاہ کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحادیوں کی جانب سے حکومت گرانے کے بعد کی صورتحال پر تحفظات ظاہر کئے گئے ہیں، اور وہ فوری نئے انتخابات کی حامی نہیں، اور اتحادی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اتنخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں، اور پیپلزپارٹی بھی اتحادی جماعتوں کے مؤقف کی حامی ہے،
جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ (ن)، مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں فوری انتخابات چاہتی ہیں، تاہم آج ہونے والے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری اپوزیشن کے دیگر قائدین کو فوری نئے انتخابات کے مؤقف میں نرمی پر قائل کریں گے، وہ خصوصی طور پر (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔پارٹی ذرائع کے مطابق آج ہونے والے اجلاس میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کے علاوہ سابق
وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی شامل ہوں گے، جب کہ ن لیگ کی طرف سے مریم نواز، حمزہ شہباز، رانا ثنا اللہ، احسن اقبال، سعد رفیق موجود ہوں گے۔ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں اپوزیشن حکومت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے گی، ملاقات کے بعد شہبازشریف اپوزیشن قائدین کے اعزاز میں پر تکلف ظہرانہ بھی دیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں