اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایف آئی اے کی جانب سے گرفتاری کے دوران مزاحمت کرنے پر صحافی محسن بیگ پر اقدام قتل، دہشت گردی اور حبس بے جا کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔بعد میں پولیس نے محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا۔پولیس نے محسن بیگ کے پانچ دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، تاہم عدالت نے تین دن کے ریمانڈ پر محسن بیگ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
عدالت میں پشی کے موقع پر محسن بیگ کا کہنا تھا کہ وہ صبح سویا ہوا تھا، جب ایف آئی اے اور پولیس اہلکار ڈاکوؤں کی طرح ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ ’بغیر وردی گھر میں آئے، گھر میں میری فیملی ہے۔‘محسن بیگ نے الزام لگایا کہ تھانے میں ایف آئی اے والوں نے ان پر تشدد کیا جبکہ وہ پولیس کی کسٹڈی میں تھا۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ایف آئی اے اہلکارعں نے ان کی ناک اور پسلیاں توڑ دی اس لیے ان کا میڈیکل کرایا جائے۔محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ ان کا تمام اسلحے لائسنس یافتہ ہے غیر قانونی نہیں۔قبل ازیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ بدھ کو ایف آئی اے نے وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر محسن بیگ کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کی۔
ایف آئی اے کے بیان کے مطابق وفاقی وزیر مراد سعید نے محسن بیگ کے خلاف شکایت ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹر لاہور میں درج کرائی تھی۔’ایف آئی اے کی ریڈنگ ٹیم نے بدھ کو سیکٹر ایف 8 میں واقع ملزم محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارا۔‘بیان کے مطابق ’اس چھاپے کے لیے مجاز عدالت سے سرچ اینڈ سیز وارنٹ حاصل کیے گئے تھے۔ چھاپے کے دوران ملزم نے اپنے بیٹے اور ملازمین کے ساتھ مل کر ایف آئی اے ٹیم پر سیدھی فائرنگ کی اور دو افسران کو یرغمال بنا کر زدوکوب کیا جس کی ویڈو ریلیز کی جا رہی ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’گولیاں ختم ہونے پر ملزم محسن بیگ کو گرفتار کر کے تھانہ مارگلہ منتقل کر دیا گیا۔‘اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق محسن بیگ کے خلاف دہشت گردی، اقدام قتل، حبس بے جا سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
محسن بیگ کے بیٹے نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ہمارے گھر آئے تھے۔دوسری جانب اسلام آباد کی ایک عدالت نے محسن بیگ کے گھر پر مارے جانے والے چھاپے کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔محسن بیگ کی گرفتاری کے خلاف دائر ایک پیٹیشن پر سماعت کے بعد جاری ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھاپہ مار ٹیم میں جو لوگ شامل تھے انہیں ایسی کسی بھی کارروائی کا اختیار حاصل ہی نہیں تھا۔ایڈیشنل سیشن جج نے ظفر اقبال نے اپنے فیصلے میں سوال اٹھایا کہ محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے لاہور نے 9 بجے مقدمہ درج کیا 10 بجے ٹیمیں اسلام آباد کیسے پہنچی؟ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس کو غیر قانونی چھاپہ مارنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنی چاہیے تھی نہ کہ محسن بیگ۔پاکستان میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں محسن بیگ کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔اپنے ایک بیان میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر راجہ ذوالفقار اور سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ عدالتی انکوائری اور تحقیقات ہونے تک محسن بیگ کو رہا کیا جائے۔پی ایف یو جے کے عہدیداروں نے اس گرفتاری کو صحافیوں کو ڈرانے کا حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ اگر محسن بیگ کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو پی ایف یو جے ملک بھر میں احتجاج کی کال دے گی۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں