لاہور (آئی این پی )لاہورہائی کورٹ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کا قانون کالعدم کرتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے بلیک لسٹ مفرور ملزم کے پاسپورٹ کی عدم تجدید کیخلاف درخواست پر فیصلہ جاری کر دیا۔ نواز شریف، شہباز شریف کیسز پر اعلی عدلیہ کے احکامات کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بلیک لسٹ قانون کو ختم کرنے پر اس کے سنگین اثرات کا خدشہ ظاہر کیا۔ قانون میں اگر کوئی خامی ہو تو پارلیمنٹ کو اپنا کردارادا کرنا چاہئے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ خدشات کی بنیاد پر ریاستی مداخلت کیخلاف بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ترجیح ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے عدالتی فیصلے میں کہا کہ مسلم لیگ نواز کیس 2007 میں سپریم کورٹ آزاد معاشرے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی مداخلت پر ترجیج دے چکی ہے۔
بنیادی آئینی حقوق آئین کے دل اور روح ہوتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سفر کرنے کا حق عالمی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔ کسی بھی شہری کا سفر کرنا اور بیرون ملک جانا بنیادی حقوق کے آرٹیکل کا جزو ہے۔ آئین کا آرٹیکل 15 پاکستان میں رہنے، آزادانہ گھومنے اور ملک میں کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق ریاستی مشینری کو کوئی ایسا اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں جو اسے قانون میں نہ دیا گیا ہو۔
ایگزیکٹو کا بلااختیار اور ذہن کا استعمال کیے بغیر کیا گیا ہرعمل غیر قانونی تصور ہوگا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974 ای سی ایل آرڈیننس 1981 بیرون ملک سفر سے متعلق قوانین ہیں۔ حکومت کسی بھی شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرنے سے 2 ہفتے قبل اظہار وجوہ کا نوٹس دینے کی پابند ہے۔ وفاقی حکومت بغیر نوٹس صرف ایسے شہری کا پاسپورٹ منسوخ جو ملکی مفاد کیخلاف کام کر رہا ہو۔ فیصلے میں یہ بھی عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے درخواست گزاروں کو نہ تو پاسپورٹ واپس کرنے کا کہا اور نہ ہی ان کا پاسپورٹ منسوخ کیا۔ وفاقی حکومت نے درخواست گزاروں کیخلاف پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کے پیرا 51 کے تحت کارروائی کی۔
پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت صرف پاسپورٹ قبضے میں لے سکتی یا منسوخ کر سکتی ہے۔ پاسپورٹ ایکٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شہری کو بلیک لسٹ کیا جائے۔ پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل کا بلیک لسٹ کرنے سے متعلق پیرا 51 قانون ساز پالیسی کیخلاف ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پاسپورٹ رولز 1974 میں بھی بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ ایگزٹ کنٹرول آرڈیننس 1981 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی شہری کو بیرون ملک سفر کرنے سے ہی روک سکتی ہے۔ وفاقی حکومت صرف سنگین جرائم میں ملوث افراد کے نام ہی ای سی ایل میں شامل کر سکتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، نامور بنکوں اور کمپنیوں سے فراڈ کے ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور بنکنگ کورٹ کے علاوہ کسی عدالت کو کسی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کسی فرد کیخلاف جرم میں ملوث شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں۔ نجی، دیوانی کیسز میں بھی کسی شہری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی حکومت کو نہیں ہے۔ پاسپورٹ منسوخ کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے بھی عدالتی نظر ثانی سے مشروط ہیں۔ عدالے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت مکینکل طریقے سے کسی کا پاسپورٹ منسوخ نہیں کر سکتی۔
گڈ گورننس کیلئے حکومت رولز بنانے کی مجاز مگر ایسے رولز آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت ہر شہری جہاں کہیں بھی ہو اسے قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں کہا کہ امن، سیکیورٹی اور معاشرے کے مفادات کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ریاست اگر خطرے میں ہو تو بنیادی حقوق بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ریاست اور بنیادی حقوق کے معاملے پر توازن برقرار رکھنا لازم و ملزوم ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ 2004 کے شہباز شریف کیس میں کسی بھی شہری کو وطن واپس آنے سے نہ روکنے کا کہا گیا ہے۔ شیخ شان الہی اور سید انور شاہ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کیخلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں