اسلام آباد ( پی این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن بنانے کی مخالفت کردی۔ گزشتہ روز جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان،سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت کی گزشتہ سماعت کے آرڈر کے مطابق پاکستان بار کونسل کو میں نے لکھا پاکستان بار کونسل نے حسن پاشا ایڈووکیٹ کو نامزد کیا ہے عدالت نے استفسار کیا کہ آڈیو کا اوریجنل کدھر ہے ؟جس پر وکیل صلاح الدین نے کہاکہ وہ آڈیو کی کاپی فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر تھی عدالت نے فرانزک کمپنیوں کے نام اٹارنی جنرل سے مانگے تھے
چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں پہلے آپ یہ بتائیں وہ اصل آڈیو کہاں ہے؟یہ معاملہ ایک زیر التوا اپیل سے متعلق ہے ہو سکتا ہے اپیل میں انہوں نے خود یہ گراونڈ لی ہو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک کیس کی متوازی دو سماعتیں چلیں جب تک اصل آڈیو نہ ملے کوئی دنیا کی فرانزک فرم واضح رائے نہیں دے سکتی صلاح الدین صاحب ہم سے احتساب کیلئے حاضر ہیں آپ کا اس عدالت سے کوئی شکوہ ہے تو ہمیں بتائیں کل ہم فرانزک کرائیں اور رائے آجائے کہ یہ آڈیو مستند نہیں دوسری جانب
اسی کیس کی اپیلیں زیر سماعت ہیں کیا ایسی رپورٹ آنے پر اپیل میں فئیر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا؟ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ صحافی احمد نورانی مجھے کبھی بھی اصل آڈیو نہیں دیں گے اگر عدالت انہیں سمن کرے یا کوئی کمیشن تب ہی آڈیو مل سکتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے اس فیصلے کیخلاف جا کر ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ یہ سارا معاملہ ایک کیس سے متعلق ہی ہے زیر التوا کیس سے متعلق متوازی
کارروائی کیسے چلائیں یہ بتائیں صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ صرف ایک پہلو ہے کہ آڈیو شریف فیملی سے متعلق ہے ہو سکتا ہے آڈیو کے علاوہ دیگر گراونڈز پر کل شریف فیملی بری ہو جائے،کل انہیں صدارتی معافی مل جائے یا کچھ بھی ہو کر کیسز ختم ہو سکتے ہیں،اس کے بعد بھی اس آڈیو کی دھند چھائی رہے گی،عوام کے ذہن میں اس آڈیو سے متعلق سوالات برقرار رہیں گے،فرانزک کرائیں شاید رپورٹ آئے کہ آڈیو جعلی یا جوڑ جوڑ کر بنائی گئی،اگر ایسی رپورٹ آئی تو سابق
چیف جسٹس اور یہ عدالت بھی بری ہو گی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ جب اس عدالت کی بات کرتے ہیں پہلے بتائیں اس عدالت سے کیا شکوہ ہے؟،اب آپ کو پہلے بتانا ہو گا اس عدالت نے ایسا کیا کیا ہے؟صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ میرا مطلب مجموعی طور پر عدلیہ تھا یہ عدالت نہیں، ہو سکتا ہے یہ آڈیو ثاقب نثار سے دوستانہ گفتگو کی ہو،چیف جسٹس نے کہاکہ جو اصل آڈیو موجود ہی نہیں اس پر زور ہی نہ دیں ابھی ، وکیل نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں اصل آڈیو تک پہنچنے کا
پراسیس تو شروع ہو،میری امید ہے رپورٹ یہی آئے گی آڈیو درست نہیں، صلاح الدین ایڈوکیٹ نے مزید کہاکہ اگر دس فیصد بھی چانس نکلا کہ آڈیو درست ہے تو پھر ؟، ہو سکتا ہے سابق چیف جسٹس نے یہ بات کسی جج کو نہ بولی ہو،ہو سکتا ہے یہ ان کی محض اپنے دوست سے کی گئی بات ہو،ہو سکتا ہے آڈیو والی گفتگو کا کسی کیس پر اثر نہ پڑا ہو،اس کی تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا معاملہ کیا ہے ،عدالت نے کہاکہ یہ ساری گراونڈز اْسی زیر التوا اپیل میں کیوں نہیں اٹھائی جا رہیں ؟،
درخواست گزار وکیل صلاح الدین ایڈوکیٹ کے دلائل مکمل ہونے پر پاکستان بار کونسل کے نمائندے حسن پاشا روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا پاکستان بار کونسل کے اپس اصل آڈیو موجودہے؟جس پر حسن رضا پاشا نے کہاکہ نہیں مائی لارڈ ، آڈیو ہمارے پاس بھی موجود نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ مطلب وہ آڈیو صرف انٹرنیٹ پر ہی موجود ہے، حسن رضا پاشا ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم بہت رنجیدہ ہیں اس عدلیہ پر الزامات لگے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ الزامات تو
عدلیہ پر دونوں طرف سے لگتے ہیں،آپ رنجیدہ صرف ایک طرف کے الزامات سے ہوتے ہیں، انٹرنیٹ پر موجود کیا سارے الزامات کی تحقیقات ہونی چائییں؟،جن کا اپنا کیس ہے انہیں اس پر کوئی اعتراض ہی نہیں ،اسی عدالت کے ڈویژن بنچ کے سامنے وہ کیس موجود ہے،کیا بار کونسل یہ کہتی ہے وہ ڈویژن بنچ یہ معاملہ نہیں دیکھ سکتا؟،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالت کے سامنے ابھی کہا گیا آڈیو جھوٹی نکلی یہ عدالت بری ہو گی،پھر کہا گیا نہیں
اس عدالت پر تو اعتبار ہے،ہم ایک کیس کیلئے کس حد تک جائیں گے، یہ ٹرینڈ ختم ہونا چائیے،کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک صاحب کی آڈیو پر ساری عدلیہ کمپرومائز ہے،اس درخواست گزار میں اور رانا شمیم میں فرق کیا رہ گیا ہے؟،پیغام یہ دیا جا رہا ہے ہاتھ تو لگاو ہم سب ججوں کو گھر چھوڑ کر آئیں گے، پیغام یہ ہے جج جدہ بھی بلائیں گے لاہور بھی اور مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑیں گے،چیف جسٹس پر حملہ کرایا جاتا ہے یہاں انکوائری کی ضرورت نہیں پڑتی ،یہاں بریف کیس میں
نوٹ بھیجے جاتے ہیں انکوائری کا نہیں کہا جاتا، وزیراعظم کو پھانسی لگانے پر نہیں کہا جاتا عدلیہ کمپرومائزڈ ہے،سارا معاملہ آکر عدلیہ کمپرومائزڈ ہونے کا اس کیس سے شروع ہوتا ہے،جسے عدلیہ پر اعتبار نہیں کھل کر خود کر یہاں کہے اِدھر اْدھر سے بات نہ کرے،جن صاحب نے نہ ان کا کیس سنا، نہ کوئی اپیل ان کی آڈیو کو بنیاد بنایا جاتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ درخواست میں اٹھائے گئے سارے نکات زیر التوا کیس سے متعلق ہیں،زرابھی امکان ہو زیر التوا کیس پر فرق پڑنے
کا تو یہ عدالت کارروائی نہ کرے،نہ یہ لوگ زیر التوا اپیلوں میں فریق بن رہے نہ رانا شمیم کیس میں،الگ سے کارروائی شروع کرنے کی درخواست مسترد کی جائے، تحقیقات کرانی تھی تو پاکستان بار کونسل خود درخواست لاتی، پاکستان بار کونسل کو تو بتانا بھی نہ پڑتا کہ وہ متاثرہ فریق ہیں یا نہیں، پاکستان بار کونسل بالکل فریق ہو سکتی ہے لیکن وہ نہیں آئے ،ایک طرف موقف ہے آڈیو اصلی دوسرا موقف ہے آڈیو گھڑی گئی،اس معاملے پر کیا عدالت اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال سکتی ہے؟
،میرا موقف ہے عدالت اپنا وزن کسی ایک ایک پلڑے میں نہیں ڈال سکتی،کمیشن بھی بنا لیں تو کیا گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ زیر التوا اپیل متاثر نہیں ہو گی،اٹارنی جنرل نے دلائل کے دوران نجی ٹی وی(سما) کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایک چینل نے یہ دکھایا تھا کہ آڈیو کہاں کہاں سے اٹھا کر جوڑی گئی،اب کون سا ورڑن درست کہہ کر اس پر جائیں گے ؟،ایک آڈیو تو وزیراعظم ہاؤس سے صحافیوں سے متعلق گفتگو کی بھی آئی، کل اس آڈیو کی تحقیقات کیلئے بھی کوئی آجائے گا
اس پر بھی کمیشن بنائیں، درخواستگزار وکیل کہتے ہیں اصل آڈیو موجود ہی نہیں،یہی بنیاد اس درخواست کو مسترد کر دینے کیلئے کافی ہے،ایک فرانزک کروا کر سٹوری دی گئی دوسرا چینل اس کا متضاد فرانزک لے آیا، پاکستانی عدلیہ کو کسی فرانزک کی بیساکھیاں نہیں چاہیں،ماضی میں بھی جج سے بات کرنے کی آڈیو آگئی تھی کچھ نہیں ہوا، عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ سچے آدمی کو بدنام کیا جاتا رہا، آج بھی تاریخ اس پر نہیں بنے گی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کس کی ہوتی تھی، صلاح الدین
ایڈوکیٹ کی میرے دلائل سے دل آزاری ہو تو معذرت خواہ ہوں،دو تین سیاسی ایجنڈاز چل رہے ہوتے ہیں،ہمیں کسی بھی ایک ایجنڈا کو سبسکرائب نہیں کر لینا چاہیے، تاریخ بہت ظالم ہے وہ کسی کو فرانزک رپورٹ پر یاد نہیں رکھتی،تاریخ ججوں کو ان کے فیصلوں پر یاد رکھے گی، میں حکومت کو بھی انکوائری کروانے کا کہہ سکتا ہوں،سوال یہ ہے اس انکوائری کا پرنسپل کیا ہو گا؟،کس کس معاملے پر انکوائری کرانی کیسے طے کریں؟، شوگر ، پیٹرولیم انکوائری پر مجھے کوئی کنفیوژن نہیں تھی کیا کرنا ہے،اس کیس میں جن کی اپیلیں زیر التوا ہیں وہ بھی میرے لئے محترم ہیں ،یہ ایک زیر التوا کیس نہ ہوتا میں بھی کہہ دیتا کروا لیں انکوائری،
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہونے پر درخواستگزار صلاح الدین ایڈوکیٹ نے جواب الجواب دلائل شروع کردیے اور کہاکہ اٹارنی جنرل نے ماضی کے واقعات کا حوالہ دیا،ہم تاریخ کو جج بنا لیں گے تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی،بریف کیس بھیجنے کی انکوائری ہوتی تو ججوں کو فون کالز کے واقعات نہ ہوتے، اٹارنی جنرل نے دو ماہ پہلے کہا بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ، اس کا ریفرنس زیر التوا ہے کیا حکومت نے اس پر سماعت کی درخواست دی؟اٹارنی جنرل نے کہا جن کا کیس ہے وہ خود کیوں نہیں آتے،میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا ہی کیس ہے کیونکہ سوال عدلیہ کا ہے،یہ شریف خاندان کے بجائے اللہ رکھا کا کیس بھی ہوتا تو میں اتنا
ہی رنجیدہ ہوتا، چیف جسٹس نے کہاکہ صلاح الدین صاحب ایک مشکل اور بھی ہے،2018 میں اسی کیس کے دوران کہا گیا فلاں جج کو بیرون ملک فلیٹ ملا،کیا اس معاملے پر بھی کہنا چاہیے کہ اس پر کمیشن بنایا جائے ؟،ایک کیس میں ایک معاملے پر کمیشن بنایا جائے تو باقی ایشوز پر کیوں نہیں؟کیا ہم سوشل میڈیا کی حوصلہ افزائی کریں کہ سچ جھوٹ جو کہیں ہم انکوائری کرتے رہیں گے؟، اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں صلاح الدین ایڈوکیٹ اور بار کو ایک پیشکش کرتا ہوں،یہ کہتے ہیں اللہ رکھا کے کیس پر بھی یہ اتنے ہی رنجیدہ ہوتے،چلیں پھر پہلے سجاد علی شاہ کو ہٹانے کی انکوائری کراتے ہیں،یہ معاملہ تو یوں بھی کہیں زیر التوا نہیں ہے ،صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ اٹارنی جنرل اب بالکل ہی گڑے مردے اکھاڑنے کی بات کر رہے ہیں،وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ #/s#
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں