’ہم سے پچاس ہزار روپے کرایہ مانگا گیا، ہمارے پاس پچاس ہزار سے کچھ پیسے کم تھے، رات گزارنے کے لیے اپنی اہلیہ کا زیور ہوٹل والوں کے حوالے کرنا پڑا

اسلام آباد (پی این آئی )مری میں اس وقت موسم صاف ہے، ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوئی ہے اور سڑکوں پر اکا دکا گاڑیوں کے علاوہ یہ کافی حد تک سنسان ہو چکی ہیں لیکن گھبراہٹ طاری کر دینے والے سکوت میں کسی سڑک کے اطراف برف میں پھنسی گاڑی سے ہی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہاں جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ایک سانحہ رونما ہوا تھا۔بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق یہاں سیاح اب بھی واپسی کے لیے کوشاں ہیں لیکن ٹریفک اہلکار بتاتے ہیں کہ جو راستے کھولے

گئے ہیں آپ انھیں مکمل طور پر ’کلیئر‘ قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی مزید سیاح مری کا رخ کر سکتے ہیں۔باڑیاں کا پانچ کلومیٹر تک کا روڈ کلیئر کرنا ابھی باقی ہے۔ سوشل میڈیا پر برف کے نیچے سے دو روز بعد نکالی جانے والی بچی کی ویڈیو یہ پتہ دیتی ہے کہ شاید بہت سے لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔ٹول پلازا پر درجنوں ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہیں تاکہ سیاح مری نہ جا پائیں لیکن ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اب بھی الزام تراشی اور اس سانحے کے اصل ذمہ داران کی

کھوج لگانے کی بحث جاری ہے۔دوسری جانب نیگنہ خان اپنے خاوند کے ہمراہ لاہور سے جمعرات کی صبح مری پہنچی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک رات مری اور ایک رات گلیات میں گزارنے کے بعد ایبٹ آباد کے راستے واپس لاہور جائیں گے۔ مگر جمعہ کی صبح جب ہم نے گلیات کی طرف سفر شروع کیا تو روڈ مکمل بلاک اور برفباری ہو رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہم نے 25 ہزار روپیہ ایک رات کا کرایہ ادا کیا اور رات ہوٹل میں گزاری۔ اب ہم ایک اور

ہوٹل میں ہیں۔ جہاں پر ہمیں کھانا پینا اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔یہ سیاح تو مہنگے کرایہ ادا کرکے چھت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر کلڈنہ روڈ پر کئی سیاح ایسے تھے جن سے پچاس پچاس ہزار روپیہ کرایہ مانگا گیا۔ سیاح منھ مانگے دام دینے کو تیار تھے مگر ان سے کریڈٹ کارڈ بھی قبول نہیں کیا گیا۔ایسی ہی ایک سیاح نصرت جہاں تھیں جو اپنے بچوں اور خاوند کے ہمراہ لاہور سے بدھ کے روز مری پہنچی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ مری میں دو دن

گزارنے کے بعد جمعے کو ہم اسلام آباد میں قیام کریں گے۔ مگر ہم نے اپنی زندگی کا وہ لمحہ دیکھا جس میں میں لمحہ بہ لمحہ جیتی اور مرتی رہی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب میں اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو کم از کم میرے بچے اور خاوند بچ جائیں۔‘نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ ’ایبٹ آباد روڈ صبح ہی سے ٹریفک کے لیے بند ہو گیا تھا۔ روڈ پر سے برف صاف نہیں ہو رہی تھی۔ گاڑیاں پھسلن کے سبب سے کھڑی ہو چکی تھیں۔

کئی گاڑیاں ٹکرا چکی تھیں۔ برف تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر میرے خاوند اکبر مصطفیٰ تقریباً دو بجے گاڑی سے نکلے اور قریب کے ہوٹلوں میں گئے۔ ان ہوٹل والوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جگہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے ویک اینڈ گزارنے کے لیے بکنگ کروا رکھی تھی وہ نہیں پہنچے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’مگر انھوں نے میرے خاوند سے 40 سے لے کر 50 ہزار روپے تک کرایہ مانگا تھا۔ ہمارے پاس کوئی 30 ہزار روپے تھے۔ ان سے کہا کہ یہ 30 ہزار

رکھ لو مگر وہ نہیں مانے۔‘نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ ’اکبر مصطفیٰ نے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا بھی کہا وہ نہیں مانے۔ ہم نے کہا کہ گاڑی، شناختی کارڈ رکھ لو حالات ٹھیک ہوں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر دے دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی نہیں مانے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جمعے کی رات انتہائی مایوسی کے عالم میں گاڑی میں بیٹھے تھے کہ رات 11 بجے کچھ مقامی لوگ ہمیں لے کر اپنی بستی میں چلے گئے جہاں پر ایک مسجد میں کئی مرد و خواتین کے ہمراہ ہم نے رات گزاری اور

اب ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہیں۔‘ایک سیاح جہانداد نصیر کا کہنا تھا کہ ’ہم سے 50 ہزار کرایہ مانگا گیا۔ ہمارے پاس 50 ہزار سے کچھ پیسے کم تھے۔ رات گزارنے کے لیے اپنی اہلیہ کے زیور ہوٹل والوں کے حوالے کرنے پڑے۔‘ماجد عباسی کہتے ہیں کہ سانحہ کی ایک بڑی وجہ ہوٹل والوں کا انتہائی نازک موقع پر انتہائی ناجائز منافع خوری کا رجحان تھا۔ ورنہ کئی ہوٹلوں میں گنجائش موجود تھی۔ ہوٹلوں کے ہالز میں بھی لوگوں کو رکھا جا سکتا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں