کراچی (پی این آئی) سابق مشیر خارجہ اور ن لیگ کے رہنما سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاست میں آئے مگر جلد سوچ بدل گئی تھی، نواز شریف نے 90کی دہائی میں طے کرلیا تھا کہ سول بالادستی کی جنگ لڑنی ہے،سابق وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاست میں آئے مگر جلد سوچ بدل گئی، جب بھی جمہوری اصولوں اور جمہوری تقاضوں سے انحراف کیا گیا ملک کو نقصان ہوا، اٹھارہویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی ہے اسے چھیڑنے سے
غلط تاثر پیدا ہوگا۔ وہ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کررہے تھے۔ سینئر سیاستدانسرتاج عزیز نے مزید کہا کہ جب بھی جمہوری اصولوں اور جمہوری تقاضوں سے انحراف کیا گیا ملک کو نقصان ہوا، سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے جمہوری نظام قائم کرنے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تھی، ملک بننے کے بعد آئین سازی میں تاخیر پہلی بڑی غلطی تھی، مشرقی پاکستان کی اکثریت غیرجمہوری طور پر ختم کر نا جمہوری عمل کی نفی تھی، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو الگ الگ
یونٹ بنانا اور اردو کو قومی زبان بنانے کی وجہ سے علیحدگی کا عمل شروع ہوا، تین سال بعد ایوب خان کے مارشل لاء نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، 70ء کے الیکشن کے بعد اگر سیاسی لیڈروں کو مذکرات کا موقع دیا جاتا تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے،مارشل لاء میں بنیادی جمہوری نظام رک جاتا اور سیاست کو دھچکا لگتا ہے، وقتاً فوقتاً مارشل لاء لگنے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اور سیاسی نظام ڈویلپ نہیں ہوسکا۔ اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سوالپر سرتاج عزیز کا
کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کا اہم ترین حصہ مقامی حکومتوں تک اختیارات کی تقسیم تھی لیکن ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا، ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ وسائل ملے لیکن انہیں استعمال کرنے کیلئے اہلیت نہیں پیدا کی گئی، اٹھارہویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی ہے اسے چھیڑنے سے غلط تاثر پیدا ہوگا، کونسل آف کامن انٹرسٹ کے فورم کے ذریعہ مشکلات دورکی جاسکتی ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد مرکز کو وسائل کی کمی ہے انہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سرتاج عزیز نے
کہا کہ سیاسی عدم استحکام ہماری معاشی خرابی کی جڑ ہے، ملک میں 35سال مارشل لاء رہا اس کے علاوہ بھی کسی جمہوری حکومت یا لیڈر نے اپنی مدت پوری نہیں کی، بنگلہ دیش میں جمہوری نظام کے تسلسل کی وجہ سے ان کی جی ڈی پی گروتھ ہم سے دگنی ہے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ 90میں ہماری حکومت بنی تو اسحاق خان دس دن کے بعد بھی نواز شریف کو نہیں بلایا، نواز شریف نے مجھے کہا کہ غلام اسحاق خان سے کہیں ووٹرز کو فیصلہ کرنے دیں حکومت کس کی ہوگی، نواز شریف نے 90میں حکومت بننے کے بعد طے کرلیا تھا کہ سول بالادستی کی جنگ لڑنی ہے، 90ء اور 93میں کی گئی ہماری معاشی اصلاحات کا تسلسل
رہتا تو ملک کے حالات مختلف ہوتے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ نواز شریف فوج کے ساتھ تعلقات اچھی طرح ہینڈل نہیں کرسکے، تمام سیاسی فورسز کے اکٹھے ہوئے بغیر سویلین بالادستی قائم نہیں ہوسکتی، اگلے پانچ سال کس نے حکومت کرنی ہے یہ فیصلہ عوام کے ووٹوں کو کرنا چاہئے، جمہوری عمل چلنے دیا جائے تو حالات بہت جلدی ٹھیک ہوسکتے ہیں، میرا ایک موثر قومی سلامتی کونسل کا تصور پورا نہیں ہوسکا، بعض معاملات خصوصاً امریکا، بھارت اور افغانستان کے حوالے سے فوج ہی فیصلہ کرتی ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ جنرل جہانگیر کرامت کا قومی سلامتی کونسل کا تصور فوج کی سپروائزری کا تھا، اس پر جنرل جہانگیر
کرامت کی برطرفی حالات کے حساب سے صحیح فیصلہ نہیں تھا، نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ مکمل تعاون کیا، فوج میں خیال تھا کہ نواز شریف سویلین سپریمیسی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ بھی نواز شریف حکومت جانے کا بڑا عنصر تھا،پارلیمنٹ ایسا فورم بنائے جو نیا چارٹر آف ڈیموکریٹک گورننس بنائے۔ سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے سبق سیکھ لیے ہیں پارٹی بھی میچور ہوگئی ہے، ن لیگ واحد جماعت ہے
جو ملک کو ان مشکل حالات سے نکال سکتی ہے، نواز شریف کو فوج کی مدد سے نہیں عوام کے ووٹوں سے آنا چاہئے ، نواز شریف الیکشن جیتتے ہیں تو انہیں مینڈیٹ ملناچاہئے چاہے کسی کو پسندہو یا نہ پسند ہو۔ فاٹا اصلاحات پر سوال کے جواب میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ فاٹا کا انضمام تاریخی عمل شروع ہوچکا ہے لیکن آہستگی سے چل رہا ہے ، ہمارے تھانے اور فورس بارڈر تک پہنچ جائیں گے تو اختیار پورا ہوجائے گا، بیس پچیس سال پہلے فاٹا انضمام ہوچکا ہوتا تو پچھلے
بیس سال میں جومصیبتیں دیکھیں وہ نہ دیکھتے۔ کارگل سے متعلق سرتاج عزیز نے کہا کہ کارگل آپریشن نے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز خان نے 26اور 29مئی کی گفتگو میں تسلیم کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کو ایک ہفتے پہلے کارگل آپریشن کا بتایا تھا، اس کا مطلب ہے پرویز مشرف نے وزیراعظم اور وزارت خارجہ کو بتائے بغیر کارگل آپریشن کیا تھا، کارگل نہ ہوتا اور ن لیگ کی حکومت نہ جاتی تو چناب فارمولے کے تحت کشمیر
کا کوئی اچھا حل نکل آتا، نریندر مودی کا لاہور کا وزٹ پہلے سے پلان نہیں تھا، نواز شریف ڈائیلاگ کے ذریعہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہ رہے تھے، افغانستان میں جو ہورہا تھا اس کا وزارت خارجہ کو پوری طرح علم نہیں تھا، افغان حکومت کا انڈیا کے ساتھ گٹھ جوڑ ہمارے لئے ٹھیک نہیں تھا۔ ملک کے معاشی حالات پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت اس وقت بہت مشکل حالات میں ہے، پچھلے کئی برسوں میں آمدن سے زائد خرچے کرتے رہے جس کی وجہ سے بوجھ
بڑھا ہے، ن لیگ کی حکومت ہوتی تو چین اور امریکا سے تعلقات میں توازن رکھتی،انڈیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی مظالم اور پانچ اگست کے فیصلے کے بعد انڈیا کے ساتھ تعلقات نارمل ہونا بہت مشکل ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں