اسلام آباد (پی این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی بیرونِ ملک جانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر پیر تک اصل بیانِ حلفی جمع نہیں کرایا گیا تو ان کے خلاف توہین عدالت کی فردِ جرم عائد کردی جائے گی۔ منگل کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی تہلکہ خیز رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کےحوالے سے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔سماعت میں
سابق چیف جج رانا شمیم، صحافی انصار عباسی اور عامر غوری کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ایڈوکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جو عدالت نے منظور کرلی ۔دورانِ سماعت رانا شمیم کے وکیل نے اخبار میں شائع ہونے والے بیان حلفی کے متن کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیان حلفی کا متن درست ہے تاہم شائع کرنے کیلئے نہیں دیا
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے وہ تکلیف دہ ہے، ان الزامات کا کوئی ایک ثبوت لے کر آ جائیں، اگر اس بیانیے میں ذرا سی بھی حقیقت ہے تو میں ذمہ داری لیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس ہائی کورٹ کے ایک ایک جج پر اعتماد ہے، ہم نے اس ہائی کورٹ کے کلچر کو تبدیل کیا ہے۔رانا شمیم کی پیروی کرنے والے سینئر وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ اصل بیان حلفی رانا شمیم کے نواسے کے پاس ہے، ساتھ ہی استدعا کی کہ رانا شمیم کو بیان
حلفی لینے کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ باہر نہیں جاسکتے۔سماعت میں رانا شمیم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا جواب انہوں نے 7 روز قبل اپنے وکیل کو دے دیا تھا۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ جواب ابھی تک عدالت میں تو داخل نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے عدالتی معاون فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ خبرشائع کرنے پرمختلف ذمہ داروں کی کیا ذمہ داری ہے؟
ہم نے صحافت سے متعلق بین الاقوامی معیارات کوبھی دیکھنا ہے۔عدالت نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے؟ اس پر سابق جج نے جواب دیا کہ میرے وکیل راستے میں ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ میں نے چار دن پہلے جواب دے دیا تھا، وہ جواب عدالت میں لطیف آفریدی صاحب کوجمع کرانا ہے۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، میں دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتاہوں اس عدالت کے ججزکوکوئی اپروچ نہیں کرسکتا،
میرے کسی جج نے کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا، اگر انہوں نے کہیں پر اوریجنل ڈاکومنٹ جمع نہیں کرایا تو وہ عدالت میں پیش کریں، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اس عدالت پرعوام کا اعتماد ختم کیا جائے، کوئی آزاد جج یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ اس پر کوئی دباؤ تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بیانیے کے ذریعے اس ہائیکورٹ پر دباؤ ڈالا گیا، اخبار نے خبر شائع کردی کہ جج کوفون کرکے کہاگیا شخصیت کورہا نہیں کرنا، رائے بنائی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججزنے سمجھوتا کیا ہوا ہے
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الزام چیف جسٹس پاکستان کیخلاف نہیں بلکہ اس ہائیکورٹ کے جج کیخلاف ہے، آپ کیاچاہتے ہیں مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججزکیخلاف انکوائری شروع ہوجائے؟ ۔رانا شمیم کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ میرے کلائنٹ نے بیان حلفی کے متن سے کوئی انکار نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں اصل ڈاکومنٹ خود لارہے ہیں یا پاکستانی سفارتخانے کو دیں گے؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیرتک اصل بیان حلفی پیش نہ کیاگیا توفردجرم عائدکی جائیگی۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں