لندن(پی این آئی)پاکستان کی نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ وہ کبھی شادی کے خلاف نہیں تھیں بلکہ اس سے منسلک روایات کے حوالے سے محتاط تھیں۔برطانوی ’واگ‘ میگزین کے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ ’میں نے شادی سے منسلک پدرشاہی کی جڑوں پر سوال اٹھائے، شادی کے بعد خواتین سے جو کامپرومائز کی امید کی جاتی ہے اور کیسے رشتوں پر روایات اور عورت بیزاری جیسے قوانین دنیا بھر میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
‘انہوں نے چند ماہ قبل ’واگ‘ کو ہی ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ سوچتی ہیں کہ شادی ان کے لیے نہیں ہے۔ اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’مجھے ڈر تھا کہ میں اپنی آزادی کھودوں گی، بحیثیت عورت اپنا وجود کھو دوں گی اور میرے نزدیک شادی نہ کرنا حل تھا۔‘انہوں نے مضمون میں لکھا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں لڑکیوں کو سکھایا جاتا تھا کہ شادی آزادانہ زندگی کا متبادل ہے۔’اگر آپ پڑھائی نہیں کرتے، جاب حاصل کریں، اپنی جگہ بنائیں اور آپ کو شادی ضرور کرنی ہے۔‘انہوں نے شادی سے منسلک اپنے خدشات بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’آپ ایگزام میں فیل ہوگئے ہیں؟ آپ کو کام نہیں مل رہا؟ شادی کرلیں۔‘ملالہ یوسفزئی مزید لکھتی ہیں کہ ’بہت ساری لڑکیاں جن کے ساتھ میں بڑی ہوئی ان کی شادیاں ہوگئیں۔
اس سے قبل کہ وہ اپنے کیریئر کے حوالے سے کوئی فیصلہ لے پاتیں۔‘اپنی ایک دوست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف 14 سال کی تھی جب ان کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی۔ملالہ کہتی ہیں کہ ’تعلیم، آگاہی اور اختیارات کے ساتھ ہم شادی کے تصور کو اور رشتوں کے خدوخال کو بدل سکتے ہیں۔‘’کلچر لوگ بناتے ہیں، لوگ اسے تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔‘اپنے شوہر عصر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی پہلی ملاقات ان سے 2018 میں اس وقت ہوئی جب وہ آکسفورڈ میں اپنے دوستوں سے ملنے آئے تھے۔’وہ کرکٹ کے لیے کام کرتے تھے تو میرے پاس ان سے بات کرنے کو بہت کچھ تھا۔ انہیں میری حس مزاح پسند تھی اور ہم بہترین دوست بن گئے۔‘ملالہ مزید لکھتی ہیں کہ ’ہم خوشی اور مایوسی کے لمحات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔
‘ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ذاتی اتار چڑھاؤ کے دوران آپس میں بات کی اور ایک دوسرے کو سنا، اور جب لفظ فیل ہوگئے تو میں نے انہیں ہوروسکوپ کا لنک بھیجا اس امید کے ساتھ کے ہمارا کنیکشن مضبوط ہوگا۔‘’عصر میں میں نے ان ایک بہترین دوست اور ساتھی پالیا۔‘نومبر 9 کو ان دونوں نے برمنگھم میں اپنے قریبی دوستوں اور خاندانوں کی موجودگی میں نکاح کرلیا تھا جس کی تصاویر ملالہ نے خود اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کی تھیں۔ملالہ لکھتی ہیں کہ ’میری والدہ اور دوست نے لاہور سے شادی کے کپڑے منگوائے اور عصر کی والدہ اور بہن کے دیے گئے زیورات میں نے پہنے اور کھانے اور ڈیکوریشن کے انتظامات میرے والد نے کیے۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں