اسلام آباد(پی این آئی)آج کل پاکستان میں مہنگائی کا شور ہے جبکہ کچھ اشیا تو ایسی ہیں جو مہنگائی کے استعارے کے طورپر استعمال ہو رہی ہیں، جن میں سے ایک چینی بھی ہے اور اس کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت کی تمام مشینری اس وقت حرکت میں ہے اور نہ صرف ڈیلروں کو گرفتار کیا جا رہے بلکہ مہنگی چینی بیچنے والوں کی دکانیں بھی سیل کی جا رہی ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنرز پولیس کے ساتھ مل کر کر چینی کی حکومتی نرخ یعنی 90 روپے فی کلو کی فروخت کے لیے کوشاں ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔اتوار کے روز پولیس نے دو ڈیلروں کو گرفتار کیا ہے جن پر شک تھا کہ وہ مصنوعی طور پر چینی کی قیمت بڑھا رہے تھے۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکار ایک ایک کریانہ سٹور پر چینی کی قیمت نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔رائیونڈ کے اسسٹنٹ کمشنر عدنان رشید، جنہوں نے چینی مہنگی بیچنے پر متعدد سٹورز سیل کیے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اس وقت چینی تو موجود ہے لیکن اصل مسئلہ لوگوں کی پسندیدہ چینی کا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’میں صبح سے شام تک اپنی ٹیم کے ہمراہ فیلڈ میں موجود ہوں اور دکانداروں نے 90 روپے کی چینی کے بورڈ کے بھی لگائے ہوئے ہیں، لوگ آتے ہیں اور پوچھتے ہیں، موٹی چینی ہے؟ لیکن جب دکاندار کہتا ہے کہ نہیں، باریک چینی ہے تو وہ واپس چلے جاتے ہیں۔
‘عدنان رشید کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں درآمد شدہ چینی کی بھرمار ہے لیکن پتا نہیں لوگ اس کو پسند کیوں نہیں کر رہے۔’میں آج صبح بھی ایک سٹور پر چیکنگ کی غرض سے اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھا کہ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے بھی موٹی چینی مانگی، جو دکاندار کے پاس نہیں تھی، خاتون واپس جانے لگیں تو ان کو روک کر پوچھا آپ یہ چینی اپ کیوں نہیں لے رہیں؟ تو ان کہنا تھا کہ یہ میٹھی نہیں ہے۔‘ان کے مطابق انہوں نے جب کہا کہ میں آپ کے ساتھ چکھتا ہوں، جس پر خاتون نے کہا، میٹھی تو ہے لیکن ویسی نہیں، جیسی موٹی چینی ہوتی ہے۔‘عدنان رشید کا کہنا تھا کہ ’اب اس بات کا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’ایک دکاندار موٹی چینی ڈیڑھ سو روپے میں بیچ رہا تھا، ہماری ٹیم نے چھاپہ مار کر کافی بڑا سٹاک ریکور کیا، اس کے بعد مسجد میں اعلان کیا کہ 90 روپے میں موٹی چینی لے جائیں۔ تو سینکڑوں لوگ نکل آئے۔
ان کے بقول ’اب ایسی نفسیات کا کیا کیا جائے۔ہر سٹور پہ باریک چینی موجود ہے لیکن اسے خریدنے والا کوئی نہیں‘ ۔کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کین کمشنر پنجاب پنجاب زمان وٹو نے بھی کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ’باریک چینی چونکہ حکومتی سبسڈی پر ہے، پہلے یہ صرف مخصوص سیلنگ پوائنٹس اور یوٹیلیٹی سٹورز پر ملتی تھی، لیکن جیسے ہی بحران شروع ہوا تو وہ چینی بھی حکومت اوپن مارکیٹ میں لے آئی۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ لوکل چینی جسے لوگ موٹی چینی بھی کہتے ہیں، وہ اس وقت مارکیٹ فورسزکی وجہ سے نایاب ہے لیکن اگر لوگ ذرا سا خیال کریں تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔‘ کین کمشنر پنجاب سمجھتے ہیں کہ چینی کو مختلف مقامات پر ذخیرہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ چینی کا کاروبار بڑا عجیب طریقے سے ہوتا ہے۔ ابھی مل کے اندر چینی تیار ہوتی ہے تو وہ مل سے باہر تین ہاتھوں میں بک بھی چکی ہوتی ہے۔ لوگ پڑا سٹاک خریدتے ہیں اور پڑا ہوا ہی بیچ دیتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایک منظم مافیا ہے جو اپنے لالچ کے لیے مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ لاتا ہے۔
‘ اسسٹنٹ کمشنر عدنان رشید کے خیال میں ایک بڑا رول ملز مالکان کا بھی ہے۔وہ کہتے ہیں ’جب بھی کوئی بڑا مل مالک چینی تیار کرتا ہے تو اس کے اور بھی کاروبار ہوتے ہیں، جن کو وہ بڑھانا چاہتا ہے تو وہ اپنی جنس پر بینک سے قرضہ اٹھاتا ہے اور اپنے دیگر پراجیکٹس میں لگا لیتا ہے۔ بدلے میں بینک وہ چینی یا گندم اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ اب وہ چینی اس وقت تک استعمال نہیں ہو سکتی جب تک بینک کے پیسے واپس نہیں ہو جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی کئی سٹاکس پر عدالتوں کے سٹے ہیں‘ ۔انہوں نےبتایا کہ ’چینی کی قیمتوں میں اضافہ یا قلت اس وجہ سے ہر گز نہیں کہ چینی دستیاب نہیں ہے بلکہ کئی ایسی طاقتیں اس سارے معاملے میں ہوتی ہیں کہ سادہ سا طلب اور رسد کا معاملہ بحران کی کیفیت میں آ جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں