جہلم (پی این آئی)کالعدم تنظیم کے لاہور سے اسلام آباد مارچ اور اب وزیر آباد میں دھرنے کے باعث جی ٹی روڈ پر دریائے چناب کا پل تیرہویں روز بھی بند ہے جس سے گجرات اور وزیر آباد کے درمیان آمد و رفت معطل اور معمولات زندگی شدید متاثر ہیں۔انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے بھی کاروباری معاملات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
دریائے جہلم کے پل سے رکاوٹیں ہٹائے جانے کے بعد اسلام آباد سے گجرات اور اس سے آگے وزیر آباد سے گوجرانوالہ لاہور کا سفر تو ممکن ہے۔ لیکن دریائے چناب کے دونوں اطراف پر واقع گجرات اور وزیر آباد کا باہمی رابطہ منقطع ہونے سے دونوں اطراف کی آبادی، بالخصوص کاروباری افراد، سرکاری ملازمین، مزدور اور کسان شدید پریشانی کا شکار ہیں۔دریائے چناب کے پل کی بندش سے نہ صرف گجرات شہر بلکہ دینہ تک کی سبزی منڈیوں میں سبزی اور پھلوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ ان منڈیوں میں زیادہ تر اشیاء کی ترسیل گکھڑ منڈی سے ہوتی ہے جو گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے درمیان واقع ہے۔سبزیوں اور پھلوں کی ترسیل متاثر ہونے سے گجرات اور گردو نواح میں ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اسی طرح گجرات میں پنکھے بنانے اور فرنیچر بنانے کے کارخانوں میں وزیر آباد سے آنے والے اور اسی طرح وزیر آباد کی چاقو، چھریاں، چمچ کانٹے اور برتن بنانے کے کارخانوں میں ورکرز کی آمد کا سلسلہ بھی دو ہفتے سے بند ہے، کیونکہ دونوں شہروں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ورکرز ایک جگہ سے دوسری جگہ کام کرنے جاتے ہیں۔دریائے چناب کے دونوں اطراف بسنے والے دیہات کے لوگوں کی آر پار زمینیں جہاں وہ دریائے چناب کے پل سے گزر کر جاتے ہیں لیکن گزشتہ دو ہفتے سے وہ اپنی فصلوں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی سے متعلق دیگر کام کاج کے سلسلے میں یا تو جا نہیں سکے یا پھر انھیں خندقوں سے گزرتے ہوئے پیدل کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے جانا پڑ رہا ہے۔ اس دوران انھیں متعدد مرتبہ رینجرز کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔وزیر آباد کی پاکستان کٹلری ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عرفان منشا نے کو بتایا کہ ’پہلے کئی دن تک شہر بند رہا۔ اس کے بعد
مظاہرین کو حامد ناصر چٹھہ پارک بھیج دیا گیا۔‘’کارخانے کھل تو گئے، لیکن گرد و نواح بالخصوص گجرات سے آنے والی لیبر نہیں آ سکی۔ مقامی لیبر کے لوگ بھی جب آ یا جا رہے ہوتے ہیں تو پولیس انھیں کالعدم تنظیم کا کارکن سمجھ کر گرفتار کر لیتی ہے یا تنگ کرتی ہے۔ ہم نے انتظامیہ سے اس کی شکایت بھی کی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ سال ہم نے وزیر آباد میں 143 ملین روپے کی برآمدات کی تھیں۔ اب 13 دن سے انٹرنیٹ بند ہے۔ ہمارے روابط دنیا سے منقطع ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں آرڈرز منسوخ ہو جاتے ہیں جس سے برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔‘گجرات سے تعلق رکھنے والے صنعت کار محمد یونس نے بتایا کہ ’گجرات اور وزیر آباد ایک لحاظ سے صنعتی شہر ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد ایک شہر سے دوسرے شہر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں آتے ہیں۔ صورت حال ایسی ہے کہ ورکرز موٹر سائیکل لے کر بھی نکلنے سے ڈرتا ہے۔ اس سے نہ صرف کارخانوں میں پیداوار میں خلل پڑا ہے بلکہ مزدور طبقے کو شدید معاشی نقصان پہنچ رہا ہے۔‘گجرات سے ہی تعلق رکھنے والے محمد ریاض جن کی زمینیں دریا کے پار ہیں کو نہ صرف اپنی چاول کی فصل کی فکر ہو رہی ہے بلکہ ان کے جانوروں کے لیے چارہ لانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے ڈیرے سے دریا کے پل سے پیدل گزر کر زمینوں تک جانے کا راستہ تین سے چار کلومیٹر ہے اور ہم اکثر یہ راستہ پیدل یا موٹر سائیکل پر طے کر لیتے ہیں۔ خندقیں کھودنے سے وہاں کسی جانور کو لے کر جانا بھی ممکن نہیں جس پر چارہ لاد کر لا سکیں اور موٹر سائیکل پر بھی نہیں جا سکتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک عزیز گوجرانوالہ کے ہسپتال سے آنکھ کا آپریشن کروا کے واپس آ رہے تھے کہ ان کے پہنچنے سے پہلے چناب پل بند کر دیا گیا۔ اس وجہ سے انھیں بیماری کی حالت میں متعدد مرتبہ رینجرز اور پولیس کو تلاشی دیتے اور صفائیاں پیش کرتے ہوئے کم و بیش چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔‘اردو نیوز نے دریائے چناب کے پل سے رکاوٹوں کے ہٹائے جانے سے متعلق گجرات انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ضلعی حکام نے کہا کہ ’ابھی تک چناب پل پر سات سو کے قریب رینجرز اور چار سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ جب تک کالعدم تنظیم کے لوگ وزیر آباد میں موجود ہیں رکاوٹیں ہٹانا مشکل ہے۔ اس حوالے سے گجرات انتطامیہ کو پنجاب حکومت کے احکامات کا انتظار ہے۔ جب لاہور سے آرڈر آئے گا تب ہی پل کو کھولا جائے گا۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں