اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) نور مقدم قتل کیس کی سماعت اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کی، دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں نامناسب طریقے سے بولتا رہا جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ملزم ڈرامے کر رہا ہے اس کو لے جائیں۔ کمرہ عدالت میں ملزم اونچی آواز میں حمزہ نامی شخص کو پکارتا رہا۔عدالتی حکم پر پولیس نے ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر نکالا تو ملزم نے پولیس کے باوردی انسپکٹر مصطفی کیانی کو گریبان سے پکڑ لیا۔
ملزم اونچی آواز میں کہتا رہا کہ پردے کے پیچھے کیا ہے،میں اور میرا خاندان اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ظاہر جعفر پولیس سے چھوٹ کر کمرہ عدالت میں گھس کے معزز عدالت کے عمل میں مداخلت کرنا چاہتا تھا۔ ملزم نے کہا کہ یہ میرا کورٹ ہے میں نے ایک بات کہنی ہے۔ میں کمرہ عدالت میں جج صاحب کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ چار پولیس اہلکاروں نے ملزم کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر وہ قابو نہ آیا مزید پولیس کو طلب کیا گیا جس کے بعد ملزم کو زبردستی پکڑ کر
بخشی خانے لیجا کر بند کیا گیا۔سماعت کے دوران کیس کے گواہ نقشہ نویس عامر شہزاد کا بیان قلمبند کیا گیا۔عامر شہزاد کے بیان پر جرح کا آغاز ہوا تو وکیل نے کہا کہ 161 کا بیان 28 تاریخ کو دینے کے حوالے سے بیان میں تاریخ لکھوائی تھی؟ گواہ نے کہا کہ جی میں نے تاریخ لکھوائی تھی، بیان میں کالے سیاہی کے نوٹ میرے لکھے ہوئے ہیں، وقوعہ کا نقشہ میں نے موقع پر تیار کیا تھا اور اسے درست کہا تھا۔وکیل نے سوال کیا کہ آپ نے حسب نشاندہی انسپکٹر عبدالستار کی
ہدایت پر تیار کیا تھا؟ گواہ نے بتایا کہ جی مدعی کا لکھا ہے اسکی نشاندہی پر تیار کیا تھا۔ گیلری کے اوپر گلی نمبر 58 کی لمبائی چوڑائی لکھی وہاں پر ہمارا پوائنٹ ہی نہیں تھا اس لیے نہیں لکھی۔ گیلری اور راستے کی لمبائی چوڑائی لکھی ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ کمرہ عدالت میں اگر کوئی گواہ ہے تو اس کو باہر نکال دیا جائے۔ نقشہ نویس عامر شہزاد پر ذاکر جعفر کے وکیل کی جرح نہ ہو سکی جونیئر وکیل نے کہا کہ ایڈووکیٹ بشارت اللہ جب آئیں گے تو جرح کریں گے، دیگر ملزمان کے وکلا نے نقشہ نویس پر جرح مکمل کر لی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں