اسلام آباد (آئی این پی)معروف اقتصادی ماہراورسینئر تجزیہ کار ڈاکٹر اشفاق حسن نے گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کو پاکستانی معیشت کے لئے ویسا اجرتی قاتل قرار دیا ہے جیسا کہ اس نے مصر کی معیشت کے ساتھ سلوک کیا ۔ اشفاق حسن کا کہنا ہے کہنا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک بتدریج اور قدم بقدم پاکستان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو انہوں نے مصر کے ساتھ کیا تھا ۔
اپنے ایک آرٹیکل میں اشفاق حسن نے مصر میں رضا باقر کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کرائے گئے 12ارب ڈالر کے معاہدے کے حوالے سے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نومبر 2016میں آئی ایم ایف نے رضا باقر کے ذریعے مصر کے ساتھ 12ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کا مقصد مصر میں کفایت شعاری پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھانا تھا تاہم اس معاہدے نے بڑے پیمانے پر غربت اور عدم مساوات کو فروغ دیا ۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق سال 2015کے اختتام پر مصر کے مرکزی بینک کی شرح سود 9.25فیصد تھی جب کہ آئی ایم ایف پروگرام کے فنڈز کے اجرا سے پہلے مصر کے مرکزی بینک کی شرح سود 14.75فیصد سے بڑھ گئی جب کہ یہ نومبر 2017تک 18.75فیصد تک جا پہنچی ۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے مزید لکھا کہ 2015میں مصر میں افراط زر کی شرح 6.9فیصد تھی جب کہ نومبر 2016میں رضا باقر کی آمد پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 11.7فیصد تک پہنچ گئی جب کہ دسمبر 2016میں یہ غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ۔ 2016کے اختتام پر افراط زر کی شرح 23.0فیصد تک جاپہنچی جب کہ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں ، ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافے اور ایکسچینج ریٹ میں گراوٹ کے باعث 2017میں اس کی شرح میں 31.8فیصد تک اضافہ ہوگیا ۔ ڈاکٹر اشفاق کے تجز یئے کے مطابق 2014-15اور 2016کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران مصر میں کرنسی کی قدر میں کوئی غیر معمولی کمی نہیں ہوئی تاہم رضا باقر کی آمد کے بعد دسمبر 2016میں زر مبادلہ کی شرح نومبر 2016میں 8.5فیصد سے بڑھ کر 17.9فیصد تک جا پہنچی ۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے اپنے تجز یئے میں گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کو معیشت کے لئے اجرتی قاتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان میں بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو اس نے مصر میں کیا تھا ۔ اب اس کے اٹھائے گئے اقدامات کو پاکستان نے بھی مہنگائی کا بہت بڑا طوفان آنے کا خدشہ ہے جس سے عوام مزید بڑی اذیت میں مبتلا ہو جائینگے۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کو درپیش خطرات سے بچانے کے لئے قبل از وقت اور تیزی کے ساتھ مثبت قدم اٹھائے تاکہ مہنگائی کی شرح اس سطح تک نہ پہنچے جو مصر میں پہنچی تھی بلکہ اگر اسے ادھر ہی روک دیا جائے تو یہ شائد پاکستان کی عوام کے لئے قابل برداشت ہو گا ورنہ ان کے لئے معمولی کی زندگی گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں