اسلا م آباد (پی این آئی) سینئر صحافی ہارون الرشید کا ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری سے متعلق کہنا ہے کہ اکثریت یہ کہتی ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔بعض لوگ عجیب باتیں کرتے ہیں جو میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ تاریخوں کا مسئلہ ہے۔عمران خان کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لیے یہ تاریخیں مناسب نہیں لہذا تھوڑا سا انتظار کر لیں۔عمران خان کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ غیر سیاسی عناصر سے مشورے نہ کریں۔
ان لوگوں سے مشورہ کریں جو سیاست کو سمجھتے ہوں۔ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا آئینی اختیار تو وزیراعظم کو حاصل ہے۔لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ آرمی چیف نے اس متعلق وزیراعظم سے مشورہ نہ کیا ہو اور ایسے ہی اعلان کر دیا ہو۔وفاقی وزیر فواد چوہدری کو بھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ اختیار وزیراعظم کا ہے۔اس سے اسٹیبلشمنٹ کو نقصان پہنچا ہے۔اس سے عمران خان کی حکومت کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اپوزیشن کی امیدیں سبز ہو گئیں۔وہ امریکا سے بھی اعلانیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ عمران خان واضح پیغام دیں ۔ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری سے متعلق بات کرتے ہوئے ہارون الرشید نے مزید کہا کہ آئین و قانون کے مطابق یہ وزیراعظم کا حق ہے لیکن روایت ہمیشہ اس کے برعکس رہی ہے۔روایت یہ رہی کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری ڈیفنس کے لیے آرمی تجویز پیش کرتی ہے اور مشورے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے منظوری دے دی جاتی ہے۔
جو سچی بات ہے وہ عامر ڈوگر نے بتائی جس پر انہیں نوٹس بھی دیا گیا۔ فیض حمید کو تین ساڑھے تین سال ہو گئے تھے، ایسا نہیں ہوتا کہ لیفٹیننٹ جنرل ایک ہی جگہ پر رہے، اُسے کور کا کمانڈر بنانا ہوتا ہے تاکہ اگر آگے جا کر اُسے چانس ملے تو وہ آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہو سکے
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں