اسلام آباد(پی این آئی)گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پرعبدالقدیر خان کے وکیل کی طرف سے عدالت عظمیٰ کو بتایا گیاتھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان راولپنڈی میں فوجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، میرے موکل کی عمر 87 برس ہو چکی ہے۔ وینٹی لیٹر سے ریکورہوہی ہیں، سوشل میڈیا پر غیر زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی
وفات خبر چلا دی گئی،ایک فنکار بیمار ہوا تو اس پر میڈیا پر خبریں چلیں،ایک فنکار کی بیماری پر اچھےعلاج کیلئے بہت زیادہ باتیں ہوئیں،لیکن ایک قومی ہیرو کو کسی نے پوچھا تک نہیں،ریاستی سطح پر کسی حکومتی فرد نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صحت تک دریافت نہیں کی،کسی حکومتی فرد نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کیلئے ایک پھولوں کا گلدستہ تک نہیں بھجوایا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب اس وقت انکے اہل خانہ کی طرف سے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو انکے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت دی جائے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں ہیں،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب دو سال سے عام شہری کی طرح بنیادی حقوق کی بھیک مانگ رہے ہیں۔معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اللہ
تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو صحت عطا فرمائے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب صحت یابی کے لئے پوری قوم دعا گو ہے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پاکستان کے عام شہری نہیں بلکہ خاص شہری ہیں،ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے پاس پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے راز ہیں،ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی سائنسدان ہیں۔قائم مقام چیف جسٹس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاسوشل میڈیا پر تو آپ کے اور ہمارے دوستوں کے بارے میں بھی کتنی باتیں کی جاتی ہیں۔عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر قرار دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کرونا وائرس کا شکار ہوئے، انکے اہل خانہ کی ملاقات کا فیصلہ طبی ماہرین کریں، آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق معاملہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مکمل صحت یابی کے بعد دیکھیں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں