اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان نے بعض گروہوں کو عام معافی سے متعلق حکومتی پالیسی کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کے لیے خطرات نہ صرف خطے اور عالمی صورتحال کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں بلکہ موجودہ حکومت کی جانب سے پالیسی سازی کو جمہوری بنانے سے انکار اور ملک کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے وقت پارلیمنٹ میں اتحاد قائم کرنے میں ناکامی سے بھی بڑھ رہے ہیں۔
خارجہ اور سیکورٹی پالیسی قومی اتحاد میں بنیادی کام کرتی ہے۔ آئے روز یکطرفہ اور کابینہ ارکان کے جانب سے متنازعہ بیانات پر ملک میں سوالات اٹھتے ہیں اور بین الاقوامی فورمز پر تنقید کا سبب بنتے ہیں۔شیری رحمان نے کہا کہ اگرچہ ایک وزیر کہتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بھارت میں پرورش پانے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھی ہیں، دوسرہ تجویز کرتاہے کہ اگر وہ تشدد ترک کردیں اور غیر مسلح ہو جائیں تو انہیں دوبارہ پاکستانی شہری کے طور پر آباد کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم خود ان کی موجودگی اور مذاکرات کا انکشاف کرتے ہیں، انہوں نے پارلیمنٹ کی بجائے غیر ملکی ٹی وی چینل پر پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوجیوں اور شہریوں نے بڑے پیمانے پر قربانیوں دیں ہیں۔ ہم نے 80ہزار جانیں دی ہیں۔ وہ کیا سیاسی حل نکالنا چاہتے ہیں؟
جسے وہ “اچھے طالبان” کہتے ہیں اس کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ وزیر اعظم کے پہلے ہی متنازعہ بیانات اور فیصلے ملک پر اثر انداز ہو رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خواتین پر گھریلو تشدد اور بچوں کی جبری شادیوں کے حوالے سے قوانین کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم ان گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کو ہتھیار بنایا ہے۔ وزیراعظم کے دیگر کئی بیانات نے ملک میں سوالات کا ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ مسلم دنیا کی پہلی اور دو بار منتخب ہونے والی وزیر اعظم شہید بینظیر بھٹو کو دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں شہید کیا گیا جنہیں انہوں نے اپنے آخری جلسے میں پاکستان کا جھنڈا ہٹانے کے لیے چیلنج کیا تھا۔ اے پی ایس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے خاندانوں کے سوالات اور تشویش بھی درست ہے، جن کو حکومت نے کبھی حل نہیں کیا۔شیری رحمان نے پوچھا کہ “سوائے چند لوگوں کے کوئی بھی نہیں جانتا حکومت کن شرائط پر ٹی ٹی پی سے بات کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ کو تمام صورتحال جاننے کی ضرورت ہے، قومی سلامتی کمیٹی کے بند دروازہ اجلاس کافی نہیں ہے جس کی حساس نوعیت کے باوجود وزیراعظم غیر حاضر تھے۔ شیری رحمان نے کہا کہ کوئی بھی وفادار پاکستانی کسی غیر ریاستی گروپ یا ملک کے ساتھ حساس شرائط پر سوال اٹھانے کے اپنے آئینی حق سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ اب کابینہ بین الاقوامی یا مقامی تنظیم کے ساتھ شرائط پر بات چیت کرنے کا اعتماد کھو چکی ہے کیونکہ واضح طور پر وہ توازن کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ شیری رحمان نے کہا کہ پی پی پی نے اس طرح کے معاملات کے حل اور تعمیر کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کا استعمال کیا اور پھر پارلیمنٹ کی نمائندہ کمیٹیوں کے ذریعے اتفاق رائے سے کارروائی کی۔ ریاست پاکستان کے خلاف گروپوں کو مذاکرات کی پیشکش نہیں کی گئی تھی جسے پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا نے سنجیدگی سے لیا۔پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت صرف مشترکہ اجلاس کو بلز بلڈوز کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے جو قانونی طور پر پاس نہیں کر سکتی اور نہ ہی سوالات کے جوابات دے سکتی ہے۔ تاریخ نے ہمیں خفیہ اور یکطرفہ فیصلوں پر دردناک سبق سکھایا ہے۔ حکومت اپنے رویے اور پالیسی پر نظرثانی کرے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں