اسلام آباد ( پی این آئی ) وفاقی حکومت نے چیئرمین نیب کی ملازمت کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے مشاورت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے شہباز شریف سے کوئی مشاورت نہٰں کی جائے گی
، شہباز شریف خود کرپشن کے الزامات کا سامنے کررہے ہیں تو ایسی صورت میں اُن سے کیسے مشاورت کی جائے؟ کیا چوروں سے پوچھ کر آئندہ کا چیئرمین نیب لگائیں گے؟۔ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال نے اپنے دور میں بہترین کام کیا ہے اور بڑے پیمانے پر وصولیاں بھی کی ہیں تاہم بھی تک چیئرمین نیب کی مدت یا نیب قوانین سے متعلق ابھی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ، ممکن ہے وزارتِ قانون اس حوالے سے کوئی کام کررہا ہو مگر ابھی تک کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا تاہم چیئرمین نیب کی مدت سے متعلق فیصلہ وزارت قانون ہی کرے گی ، اس معاملے پر شہبازشریف سے کوئی مشاورت نہیں کی جائے گی۔دوسری طرف پاکستان سے 30 ملین پاؤنڈ وصول کرنے والے براڈشیٹ نے نیا دعویٰ سامنے آگیا ہے، براڈشیٹ نے نیب اور حکومت پاکستان سے مزید 1.2 ملین پاوٴنڈ مانگ لیے ہیں، مزید 1.2 ملین پاؤنڈقانونی فیس اور ادائیگیوں کی مد میں مانگے گئے ہیں،بینک ذرائع لندن کا کہنا ہے کہ 17 اگست کو براڈشیٹ کو 9 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ ادا کیے گئے، براڈشیٹ کے وکلاء نے لندن میں نیب کے وکلاء ایلن اینڈ ایوری کو خط بھیج دیا ہے۔، خط میں براڈشیٹ وکلاء نے کہا کہ 1.2 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومت پاکستان سے اصل رقم لینے میں خرچ ہوئی، ان اخراجات کا عدالت جائزہ لے چکی ہے، نیب کو یہ رقم اپنے اور وکلاء کے طرز عمل اور غیرفعال ہونے پر دینی پڑے گی۔ سی ای او کاوے موسوی نے کہا کہ وکلاء نے حکومت پاکستان کو معاملہ حل کرنے کا کہا ہے، معاملہ خوش اسلوبی سے حل نہ ہوا تو کاروائی کو آگے بڑھائیں گے ، نیب پہلے بھی آربٹریشن ایوارڈ کو مطمئن نہیں کرسکا تھا، ہائیکورٹ کے حکامات کی تعمیل کرانے کیلئے بہت کام کرنا پڑا، خط میں نیب کو سست اور غیرضروری تاخیر کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا، براڈشیٹ وکلاء کا خط نیب اسلام آباد ہیڈکوارٹر بھی پہنچ گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں