لاہور(آئی این پی)پنجاب اسمبلی کے سپیکرچوہدری پرویز الہی نے تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نام کا کوئی گروپ وجود ہی نہیں رکھتا،جہانگیر ترین نے ڈپٹی وزیراعظم کا سٹیٹس انجوائے کیا اور ایسے ایسے کام کیے جس سے پارٹی اور ملک دونوں کو نقصان ہوا،مسلم لیگ(ن)میں بیانیے کی جنگ نہیں بلکہ سیاسی وراثت کا مسئلہ ہے، حقیقت یہ کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے،شہباز شریف کا کوئی ووٹ نہیں، نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ میرا نام میری اولاد آگے چلائے، آصف زرداری وضع داری کی سیاست کرتے ہیں، آصف علی زرداری نے میرے کہنے پر سینیٹ انتخابات میں معاونت کی، زرداری صاحب کا شکریہ ادا کرنے ان کے گھرگیا تھا، اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر دبا ئوتھا،میں نے سمجھایا کہ اسے چلنے دیں فائدہ آپ کو ہی ہوگا، اپوزیشن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کا کہتی ہے، لیکن یہ ساری باتیں ہیں،پنجاب حکومت کو کوئی مسئلہ ہے۔غیرملکی ویب سائٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں پرویز الہی نے کہا کہ میرے نزدیک ایسا کوئی گروپ شروپ نہیں ہے، بلکہ ایسا کچھ بھی نہیں ، جہانگیر ترین صاحب نے ڈپٹی وزیراعظم کا سٹیٹس انجوائے کیا ہے،عمران خان صاحب نے سب کچھ ان پر چھوڑا ہوا تھا۔ اس پر وہ(عمران خان)کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔جہانگیر ترین نے ایسے ایسے کام کیے جس سے پارٹی اور ملک دونوں کو نقصان ہوا۔ اسی وجہ سے وزیراعظم ان سے ناراض ہیں اور یہ ناراضی ان کا حق ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین گروپ سے پنجاب میں حکومت کو کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں ، جن اراکین کو ترین گروپ کہا جارہا ہے وہ تو وزارتوں سے محظوظ ہو رہے ہیں، وہ حکومت کی تمام مراعات اور وزارتیں انجوائے کر رہے ہیں، بلکہ وہ تو ہر وقت مجھے بزدار صاحب کے ساتھ بھی نظر آتے ہیں۔پنجاب کی سیاست میں اہم شخصیت سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الہی نے اپنے انٹرویو میں مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست پر بھی کھل کے بات کی۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر بیانیے کی جنگ نہیں بلکہ سیاسی وراثت کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے،شہباز شریف کا کوئی ووٹ نہیں، اور نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ میرا نام میری اولاد آگے چلائے۔ چونکہ ان کے بیٹے سیاست میں نہیں ہیں، مریم بی بی سیاست میں ہیں تو اس لیے وہ کافی فرنٹ پر جا رہی ہیں۔ چوہدری پرویز الہی سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی پارٹی کے لوگ مخمصے میں ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ بولے ان کی پارٹی کے لوگ کنفیوز ہیں۔ ان کو اب سمجھ نہیں آرہی کہ ووٹ بنک تو میاں صاحب کے ساتھ ہے اور جب وہ شہباز شریف کی طرف دیکھتے ہیں تو ان (شہباز شریف )کی ہر بات کی تردید مریم کی طرف سے آجاتی ہے۔ یہ واضح ڈویژن ہے اور اس کا نقصان اجتماعی ہوگا۔ کسی کو کم ہو سکتا ہے کسی کو زیادہ۔ اس طرح منقسم ہو کر الیکشن میں جائیں گے تو ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ چوہدری پرویز الہی نے اپنے انٹرویو میں پنجاب کے سابق وزیراعلی شہباز شریف سے شکوہ بھی کیا اور ان پر تنقید بھی کی۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے کئی پروجیکٹس صرف اس لیے بند کروائے کیونکہ ان کا آغاز میں نے کیا تھا۔شہباز شریف نے میرے دور کے پروجیکٹس بند کروائے۔ ہسپتال بند کروائے، میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور اتنا بڑا پروجیکٹ تھا وہ بند کروایا۔ پورے پنجاب میں منصوبے بند کروائے۔ اسی طرح انہوں نے کئی کالجوں کی عمارتیں بند کروائیں اور پنجاب کا بہت نقصان کروایا۔ وہ تکبر کے مارے ہوئے ہیں ان کو لگتا ہے جو کام وہ کرتے ہیں کوئی اور یہ کام کیسا کر سکتا ہے۔ آج بھی ان میں وہی تکبر نظر آتا ہے اور اس کی وہ سزا بھگت رہے ہیں اور آگے بھی بھگتیں گے۔چوہدری پرویز الہی نے پیپلز پارٹی کی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری وضع داری کی سیاست کرتے ہیں، انہوں نے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ آصف علی زرداری نے ان کے کہنے پر سینیٹ انتخابات میں معاونت کی۔میں زرداری صاحب کا شکریہ ادا کرنے ان کے گھرگیا تھا کیونکہ سینیٹ میں اتنا بڑا کام ہوا ہے خود عمران خان صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ہم تین سیٹیں ہار رہے ہیں۔ پیسہ بڑا چل رہا تھا۔ میں نے پانچ چھ دن محنت کی کیونکہ میری سب جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں تو اسی وجہ سے یہ ہار جیت میں تبدیل ہوئی۔ زرداری صاحب نے کاغذات واپس نہیں لیے تھے۔ پھر میں نے انہیں درخواست کی تو انہوں نے واپس لے لیے، سو میں اس بات کا شکریہ ادا کرنے گیا تھا۔ اور ابھی بھی دیکھیں کراچی میں جو اپوزیشن کا جلسہ ہوا ہے اس میں پیپلزپارٹی نہیں تھی۔ایک سوال کے جواب میں کہ مسلم لیگ ق آئندہ انتخابات میں اپنے آپ کو پیپلز پارٹی کے ساتھ دیکھ رہی ہے یا تحریک انصاف کے ساتھ ؟ ان کا کہنا تھا سیاست میں کوئی دل نہیں ہوتا صرف حالات ہوتے ہیں۔ جیسے حالات ہوئے ویسا فیصلہ کریں گے۔چوہدری پرویز الہی موجودہ مخلوط حکومت میں 2018سے ہی سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں، تاہم سپیکر ہونے کے باوجود انہوں نے کئی مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید بھی کی اور بعض اوقات سخت بیانات بھی دیے جس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ حکومت اور ہمنوا جماعت کے مابین خلیج زیادہ بڑھی تو پھر پنجاب حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہ ہم نے جیسے ہی مخلوط حکومت میں آنے کی ہامی بھری تو سب کچھ پہلے سے طے کیا۔ جیسے زرداری صاحب کے ساتھ ہم نے طے کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ شروع شروع میں بڑے مسائل آئے اور اسمبلی چلانا مشکل تھا۔ پرویز الہی نے انکشاف کیا کہ ان پر اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر دبا ئوتھا۔ یہ بات تو ہم انہیں سمجھاتے تھے، لیکن یہ مجھے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرنے دیتے تھے۔ میں نے سمجھایا کہ اسے چلنے دیں فائدہ آپ کو ہی ہوگا۔ اب جا کر یہ بات سننا شروع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کا کہتی ہے، لیکن یہ ساری باتیں ہیں۔ پارٹی کو اور عمران خان کو بزدار صاحب پر اعتماد ہے اس لیے نہیں سمجھتا کہ پنجاب حکومت کو کوئی مسئلہ ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں