نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی سب سے بڑی منڈی ،جہاں 30لاکھ روپے قیمت کی گاڑی 5 لاکھ روپے میں مل جاتی ہے

کوئٹہ (پی این آئی)افغانستان کے علاقے ویش سے چمن اور دیگر سرحدی راستوں سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پچھلے 20 برسوں سے بلوچستان آ رہی ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب تو یہ صوبہ اسمگلڈ شدہ گاڑیوں کی بڑی منڈی بن چکا ہے۔چمن میں گاڑی پسند کریں، قیمت طے ہونے کے بعد ایک لاکھ روپے اضافی دینے پر یہ گاڑیاں ملک کے کسی بھی شہر پہنچا دی جاتی ہیں۔ کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں اسمگلڈ شدہ گاڑیوں کے بڑے بڑے شو روم کام کر رہے ہیں جہاں مختلف ماڈلز کی گاڑیاں اپنی اصل قیمت سے ایک تہائی کم پر دستیاب ہوتی ہیں، خریدیں اور جہاں چاہیں لے جائیں۔کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران 1300 سے زائد اسمگلڈ شدہ گاڑیاں قبضہ میں لی ہیں جس سے ان گاڑیوں کی اسمگلنگ میں کمی آئی ہے۔اس حوالے سے کلیکٹر کسٹم بلوچستان عرفان جاوید کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کے صارفین کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور پشاور میں ہیں لیکن ان میں بھی اب کمی واقع ہوئی ہے۔ کمی کی وجہ یہ ہے کہ کابلی گاڑیوں کی ان تک پہنچ مشکل ہو رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے تین لاکھ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اب بھی کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں عام افراد، پولیس اہلکاروں اور سرکاری افسران کے زیرِ استعمال ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اسمگلنگ کی روک تھام کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے باعث قومی خزانے کو ٹیکس کی مَد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ صوبے میں محکمہ ایف بی آر، کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نظر نہیں آتا۔عام تاثر یہ ہے کہ یہ گاڑیا ں بااثر افراد کے ذریعے اندرون ملک اسمگل ہوتی ہیں اس لیے کسٹم حکام اور اینٹی اسمگلنگ ادارے ان کے خلاف کارروائی سے کتراتے ہیں۔ممتاز ماہر امور معاشیات محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے ملک کی معیشت کے اربوں روپے کا نقصان وفاق کو ہو رہا ہے، اس کے لیے بہت سارے طریقے ہو سکتے ہیں، حکومت اسے ریگولر کرنے کا سوچ سکتی ہے، ٹیکس کم کر سکتی ہے۔ان کے مطابق ایک آدمی عام مارکیٹ سے ایک گاڑی کے 30 لاکھ دیتا ہے، وہی گاڑی ویش سے 5، 6 لاکھ میں مل جاتی ہے۔ اس میں افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں سارے کے سارے بڑے لوگ ملوث ہیں۔بلوچستان میں 2013 میں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 17800 اسمگلڈ شدہ گاڑیوں کو رجسٹرڈ کر کے قانونی شکل دی گئی جس سے ملکی خزانے کو 6 ارب روپے کا فائدہ پہنچا جبکہ ملک بھر میں 51 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی اور قومی خزانے میں 18 ارب روپے جمع ہوئے۔ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ اظہر اکرام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئٹہ سمیت صوبے میں دہشت گردی اور اغوا کی کئی وارداتوں میں یہی اسمگلڈ شدہ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کی روک تھام کے لیے پولیس نےکسٹم کے ساتھ مل کر خصوصی مہم بھی چلائی ہے۔ اس سال کے پہلے 7 ماہ میں 600 گاڑیاں کسٹم کو مشترکہ طور پر پکڑ کر دیں، اب شو رومز پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو پکڑیں تاکہ یہ کسی دہشت گردی میں ملوث نہ ہوں۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اسمگلنگ میں کمی کا امکان ہے۔ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر حکومت ملک میں موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کر دے تو نہ صرف ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ گاڑیوں کا مکمل ریکارڈ بھی نادرا اور پولیس کے پاس مرتب ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں