لاہور (پی این آئی) ملک کی مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں ، علماء و مشائخ نے محرم الحرام میںا من وا مان کے قیام کیلئے پاکستان علماء کونسل ، متحدہ علماء بورڈ کے تعاون سے ملک بھر میں پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل کرنے کا اعلان کیا ہے ، چیئرمین پاکستان علماء کونسل و نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ محرم الحرام میں امن امان کے قیام کیلئے چیئرمین متحدہ علماء بورڈ و نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ کے دفتر کے تحت ملک بھر میں رابطہ کا سسٹم بنایا گیا ہے ، لاہور ، اسلام آباد میں رابطہ آفس قائم کیے گئے ہیں تا کہ کسی بھی قسم کی صورتحال کا فوری تدارک کیا جائے۔اس موقع پر مولانا عبد الوہاب روپڑی ، مولانا محمد خان لغاری ، مولانا اسد اللہ فاروق ، مولانا محمد علی نقشبندی ، مولانا محمد رفیق جامی ،علامہ عبد الحق مجاہد، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ، علامہ زبیر عابد ، علامہ محمد حسین اکبر ، علامہ طاہر الحسن ، مولانا محمد اسلم صدیقی ، مولانا عبد القیوم فاروقی ، قاری عبد الحکیم اطہر ، مولانا قاسم قاسمی،مولانا محمد شفیع قاسمی، مولانا محمد اشفاق پتافی، مولانا نعمان حاشر، پیر اسعد حبیب شاہ جمالی، مولانا عقیل الرحمن زبیری ، مولانا عبد الرئوف ڈوگر، مولانا تنویر احمد چوہان ، قاری محبت علی قاسمی، مولانا محمد شفیق انور ، ، مفتی ثناء اللہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق 14 نکات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ : 1- فرقہ ورانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اسلامیہ کے احکام کے منافی اور فسادفی الارض اور ایک قومی و ملی جرم ہے۔2) تمام مسالک کے علماء و مشائخ اور مفتیان پاکستان انتہا پسند انہ سوچ اور شدت پسندی کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔3) انبیاء کرامؑ، اصحاب ؓرسولﷺ ، ازواج مطہراتؓ اور اہل ِبیت اطہارؓکےتقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہےاور جو شخص ان مقدسات کی توہین و تکفیر کرے گا تمام مکاتب فکر اس سے برات کرتے ہیں۔ 4) ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم (گالم گلوچ)، بد زبانی، اشتعال انگیزی، نفرت اور اختلاف کی بنا پر قتل وغارت گری یا اپنے نظریات کو دوسروں پر جبر کے ذریعے مسلط کرنا یا ایک دوسرے کی جان کے درپئے ہونا شریعت اسلامیہ کے مطابق حرام ہے اور ملک بھر کے علماء و مشائخ ایسے عناصر سے برات کا اعلان کرتے ہیں۔5) دینی شعائر اور نعروں کی نجی عسکری مقاصد اور مسلح طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرنا قرآن وسنت کی رو سےقطعی طور پر درست نہیں ۔6) علماء و مشائخ اور مفتیان عظام کا فریضہ ہے کہ درست اور غلط نظریات میں امتیاز کرنے کے بار ےمیں لوگوں کو آگاہی دیں جبکہ کسی کو کافر قرار دینا (تکفیر) ریاست کا دائرہ اختیار ہےجو ریاست شریعت اسلامیہ کی رو سے طے کرے گی۔ 7) پاکستان کے تمام غیر مسلم شہر یوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور جو حق غیر مسلم شہریوں کو آئین پاکستان نے دئیے ہیں ان کو کوئی فرد ، گروہ یا جماعت سلب نہیں کر سکتی۔ 8) جو غیر مسلم اسلامی ریاست میں امن کے ساتھ رہتے ہیں انہیں قتل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ گناہ ہے اور جو آئین پاکستان اور قوانین پاکستان کی خلاف ورزی کریں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کو قانون کے دائرے میں سزا دے۔9) اسلام کی رو سے خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاس داری کرنا سب کے لئے ضروری ہے ۔خواتین کو وراثت میں حق دینا اور خواتین کی تعلیم کا حکم شریعت اسلامیہ نے دیا ہے ۔ 10) سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے لہٰذا کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لئے اسکا استعمال جائز نہیں اور ایسے عناصر سے ہم سب اعلان برات کرتے ہیں۔ 11) ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت میں شرکت یا اس کی کسی بھی طرح مددیا حمایت کرنا کسی بھی صورت شرعی اور قانونی طور پر درست نہ ہے ۔ 12) حکومت یا مسلح افواج و دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف مسلح کارروائیاں بغاوت کے زمر ے میں آتی ہیں جو شرعا حرام ہیں ۔ہم پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے اداروں کی ملک و قوم کیلئے قربانیوں اور جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں۔ 13) جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں کو شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے۔ 14) نفاذِشریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب کاری وفساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں اسلامی شریعت کی رو سے حرام ہیں ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں