اسلام آباد (پی این آئی) سینئیر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست نے اُس کے بیانیے کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ بیانیے کی کنفیوژن نے بالآخر اسے مضمحل کر دیا ہے۔ شروع میں مزاحمتی بیانیہ اور مفاہمتی بیانیہ اسے سوٹ کرتا رہا، ن لیگ نے پارلیمانی سیاست اور پی ڈی ایم کی سیاست کے لئے مفاہمتی بیانیہ اپنایا اور شہباز شریف اس کے موید و مبلغ بن گئے جبکہ عوامی اور انتخابی سیاست کے لئے احتجاجی بیانیہ اپنایا گیا اور مریم نواز کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔یانیوں کا یہ تضاد دو تین برس سے چل رہا تھا اور ووٹر اس کنفیوژن میں مبتلا تھے کہ اصل بیانیہ کون سا ہے؟ میری ناقص رائے میں بیانیوں کے اندر یہ تضاد تھوڑی مدت کے لئے تو چل سکتا ہے اسے لمبی مدت تک چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ن لیگ کے ساتھ المیہ یہی ہوا ہے کہ اس تضاد نے ووٹر زکو مایوس اور پریشان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کافی عرصے سے مریم نواز کی سیاست انتخابی نہیں رہی، وہ صرف مزاحمتی سیاست پر زور دیتی ہیں چنانچہ انتخابی نتائج کا متاثر ہونا ایک فطری بات تھی۔دوسری طرف شہباز شریف کی سیاست مفاہمانہ ہے اور انہوں نے اپنی ترجیح پارٹی سیاست اور عوامی سیاست کی بجائے پارلیمانی سیاست بنا رکھی ہے۔ وہ شاذ و نادر ہی پارٹی کے اجتماعات اور عوامی جلسے جلوسوں میں جاتے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی مفاہمانہ سیاست سے نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی اور حمزہ شہباز شریف کی رہائی کے حوالے سے بھی ان کے اس رویے نے مدد کی لیکن تحریک انصاف کے مقابلے میں ان کا بیانیہ کمزور نظر آتا ہے۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ کی تنظیمی اور پارلیمانی سوچ میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی پہلی قطار میں بیٹھنے والےزیادہ تر لیڈرز شہباز شریف کی سوچ کے حامل ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح مقتدرہ سے ہاتھ ملا کر ن لیگ کو دوبارہ سے فیورٹ بنایا جائے لیکن پارلیمانی قیادت کے اس بیانیے کی تاحال نواز شریف کے ہاں شنوائی نہیں ہو رہی۔راولپنڈی اور فیصل آباد ڈویژن کے سوا ن لیگ نے پچھلے انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور اب بھی پنجاب کے بڑے شہروں میں اس کا ووٹ بینک مستقلاً موجود ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں تقریباً ایک ہی معاشی سوچ کی حامل ہیں۔ دونوں ہی مڈل کلاس اور دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ اگر تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی گئی تو ن کا ووٹر تحریک انصاف کی طرف جا سکتا ہے۔یہی خطرہ تحریک انصاف کو بھی ن سے ہے، اگر تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی بری ہوئی تو تحریک انصاف کا ووٹر ناراض ہو کر ن لیگ کا حامی بن سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ہی کلاس اور نظریات کی ترجمان جماعتیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ آئندہ الیکشن کو دو سال رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اس حکومت کے لئے ایک سال ہی باقی ہے کیونکہ آخری سال میں معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔عمران خان کو ایک وزیر نے یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ انتخابات ایک سال پہلے کروا لیں کیونکہ اِس وقت حالات زیادہ سازگار ہیں ممکن ہے کہ پانچ سال بعد حالات اتنے زیادہ سازگار نہ رہیں۔ عدلیہ اور مقتدرہ کا مزاج بدل گیا تو الیکشن کا رنگ بھی بدل جائے گا۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عمران خان وقت سے پہلے انتخابات کروانے کا سوچیں البتہ اگر پنجاب میں تحریک عدم اعتماد آئی اور تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت غیرمستحکم ہوئی تو پھر عمران خان انتخابات کروانے میں جلدی کریں گے اور اسمبلیاں توڑ کر میدان میں اترنے کو ترجیح دیں گے۔اب سے سیاست کا رُخ آئندہ الیکشن کی طرف ہوگا، نئی صف بندیاں ہوں گی، نئی منصوبہ بندی ہو گی۔ اگر ن لیگ کو دبانا مقصود ہوا تو ن لیگ کے اندر دراڑیں پڑ سکتی ہیں اور اگر اگلی باری تحریک انصاف کو نہیں ملنی تو پھر تحریک انصاف کے اندر سے ایک نیا باغی گروپ پیدا ہو گا جس کا توڑ کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں